22 فروری ، 2022
ایک شادی شادہ جوڑا اُن 44؍ لوگوں میں شامل تھا جن پر کراچی اور گرد و نواح میں اسکیم چلانے کا الزام تھا۔ شوہر پلی بارگین چاہتا تھا لیکن اہلیہ ہچکچا رہی تھی۔
نیب کے مطابق، خاتون کے پاس ان غیر ملکی بینک اکائونٹس کے خفیہ کوڈ تھے۔ وہ سمجھتی تھی کہ میاں بیوی کی قربانی سے بچوں کی زندگی ان اکاؤنٹس میں رکھی دولت سے اچھی ہو جائے گی لیکن بعد میں خاتون نے بھی ہار مان لی۔
نیب فیصلے کے اس انجام پر بہت خوش تھا کیونکہ اعتراف کے نتیجے میں ہونے والی ریکوری کسی اور طریقے سے ممکن نہیں تھی۔ تاہم، اس جوڑے نے نیب کو بے وقوف بنا دیا۔ 2003ء میں انہوں نے پلی بارگین قبول کرتے ہوئے 1.8؍ ملین ڈالرز ادا کیے جو ان کی جانب سے غیر ملکی بینکوں میں چھپائی گئی دولت کا 80؍ فیصد حصہ تھی۔
اس طرح دونوں کو آزادی مل گئی لیکن اب کریڈٹ سوئیز کے لیک ہونے والے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ جوڑے نے اصل رقم کے حوالے سے جھوٹ بولا تھا۔ یہ اکاؤنٹ اسکیم کے عروج پر 1987ء میں کھولا گیا تھا اور اس میں جون 2003ء تک مبینہ طور پر 20؍ لاکھ سوئس فرانک تھے اور نیب کو بتائی گئی رقم مجموعی رقم کا محض 60 فیصد حصہ تھی۔ اس حوالے سے شوہر نے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔
اس جوڑے کے علاوہ، کئی ایسے افراد ہیں جنہوں نے نیب تحقیقات کے دوران یا پھر اس کے بعد کریڈٹ سوئیز میں اکاؤنٹ کھولا۔ ایسے افراد میں پاکستان کا ایک ایسا بینکر بھی شامل ہے جو مشرق وسطیٰ میں کام کرتا ہے اور اس کے سوئس اکاؤنٹ میں 700؍ ملین سوئس فرانک تھے۔ سابق سینیٹر سیف اللہ دوسرے امیر ترین پاکستانی اکاؤنٹ ہولڈر ہیں۔ 2009ء میں ان کے اکاؤنٹ میں 105؍ ملین سوئس فرانک تھے یعنی نیب کی جانب سے بینک فراڈ کے الزام کے تحت ان کیخلاف ریفرنس دائر کرنے سے ایک سال قبل تک، ان کے2 بیٹے اس کیس میں شریک ملزمان تھے۔
اکاؤنٹ 2008ء میں نیب کی تحقیقات کے دوران کھولا گیا اور 2011ء میں بند کیا گیا۔ نیب کو بظاہر اس اکاؤنٹ کا پتہ نہیں تھا۔ نیب کیس زیر التوا ہے اور اس کا فیملی پر شاید ہی کوئی اثر ہوا ہو، یہ فیملی بینک میں بڑی شیئر ہولڈر ہے اور اس بینک کے مالک ایک اہم وفاقی وزیر ہیں۔۔ اگرچہ نیب کے اس معاملے پر ریفرنس کی قسمت کے فیصلے کا پتہ نہیں کیا ہوگا۔ ان کے بیٹے شوکت نے اکاؤنٹ کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
سابق سینیٹر وقار کی فیملی کا بھی سوئس اکاؤنٹ سامنے آیا ہے۔ 2000ء کی دہائی میں وہ اور ان کے والد اور بھائی سینیٹرز تھے۔ اُس وقت انہوں نے سوئس اکاؤنٹ کھولا جس میں 2008ء تک 9.8؍ ملین فرانک تھے۔ الیکشن کمیشن میں ان تینوں میں سے کسی نے بھی اثاثے ڈکلیئر نہیں کیے۔ اکاؤنٹ 2013ء میں بند کر دیا گیا ،ایسی جائیدادیں سامنے آئیں جو رہن رکھی گئی تھیں تاہم پاکستان میں ٹیکس حکام کو ان جائیدادوں سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔ ایف بی آر نے جب ان پنجاب کے ایک وزیر اور ان کے بھائی بھی بینک میں اکاؤنٹ تھے۔ اکاؤنٹ مارچ 2011ء میں کھولا گیا اور فروری 2012 میں بند کر دیا گیا۔
اس میں 2.76؍ سوئس فرانک تھے۔ نیب نے 2018ء میں فیملی کیخلاف انکوائری شروع کی اور بتایا کہ ان کے اثاثوں میں اُس وقت اربوں کا اضافہ ہوا جب ان کے بھائی پہلی مرتبہ وفاقی وزیر بنے تھے۔ اس انکوائری میں بتایا گیا تھا کہ 2011ء سے 2018ء کے درمیان فیملی کو ملنے والے غیر ملکی زر مبادلہ کی مالیت 708؍ ملین ڈالرز ہے ۔
اس بات کا کوئی اشارہ ہے اور نہ نیب نے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذرائع کی شناخت کی۔ ایک اور انکوائری بھی ہے جو لندن میں جائیدادوں کی خریداری کے متعلق ہے۔ میاں کے بیٹوں کی ایف بی آر نے اسکروٹنی کی ہے، بیورو ان سے فنڈز کے ذرائع کا معلوم کرنا چاہتا تھا۔ ایف بی آر کی جانب سے طلب کیے جانے پر میاں نے خود کو اس معاہدے سے دور رکھا،ان کے بیٹوںکا کہنا ہے کہ سنگاپور میں قائم کمپنی نے دو کمپنیوں سے قرضہ لیا۔
ایف بی آر نے حکام کو خط لکھا جن میں سے صرف ایک نے جواب دیا اور کہا کہ جس کمپنی کا ذکر کیا گیا ہے اس نام کی کمپنی کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے تمام معاملہ مشکوک ہوگیا۔ کریڈٹ سوئیز بینک کے نئے لیک ہونے والے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کمپنی کا میاں اور اہلیہ کے ساتھ جوائنٹ اکاؤنٹ ہے، اس جوڑے کے دو اکاؤنٹس تھے۔ 2012 تک مذکورہ کمپنی کے اکائونٹ میں 18.5؍ ملین فرانک تھے۔
فیملی کی جانب سے ایف بی آر کو فراہم کردہ معلومات کے مطابق کمپنی کو 2010ء کے آخر میں 20؍ ملین ڈالرز کا قرضہ ملا تھا جبکہ اس اکاؤنٹ میں دو سال بعد اتنی ہی رقم کے قریب قریب ایک اور رقم جمع ہوئی تھی۔ یہ غیر واضح ہے کہ فنانسنگ اسی کمپنی کے ذریعے ہوئی تھی یا یہ محض ایک نام ہے۔
لیکس میں فیملی کا بھی نام ہے،ان کے اہل خانہ کے انفرادی اور مشترکہ اکاؤنٹس سامنے آئے ہیں جو 2004ء سے 2010ء تک فعال رہے۔ یہ اس وقت کے فوراً بعد کی بات ہے جب ان کا نیب کے ساتھ قرضہ کی سیٹلمنٹ کا معاہدہ طے پایا تھا۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ان اکائونٹس میں 60؍ ملین سوئس فرانک تھے۔ خاندان کا چھوٹا بینک تھا،فیملی کے دو اکاؤنٹس تھے۔ پہلا 2001ء میں اُس وقت کھولا گیا جب قرضہ ڈیفالٹ کیس میں نیب اس فیملی کے پیچھے لگا ہوا تھا۔ دوسرا اکاؤنٹ 2010ء سے 2015ء تک فعال رہا۔