Time 24 فروری ، 2022
بلاگ

قربت سے دوری تک

جو کبھی عمران خان صاحب کے قریبی ہوا کرتے تھے وہ جب اُن سے دُور ہوئے تو کُھل کر بولنا شروع کردیا۔ پارٹی سے نکلنے کے بعد پارٹی معاملات اور خان صاحب کے بارے میں ایک پینڈورا باکس کھول دیا جاتا ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ سلسلہ شروع کہاں سے ہوا اور کیوں یہ شخصیات ایسا کرنے پر مجبور ہوئیں؟ آئیے جائزہ لیتے ہیں۔

قصہ شروع ہوتا ہے پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر سے، جنھوں نے سنہ 2011 میں عمران خان کے سامنے جب پارٹی فنڈنگ سے متعلق بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی تو بجائے کے پارٹی میں موجود کرپٹ عناصر کے خلاف عمران خان کوئی ایکشن لیتے اُلٹا اکبر ایس بابر کو خاموش رہنے کا مشورہ دیا گیا اور جب اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کی غیر ممنوعہ فنڈنگ کا کیس لے کر الیکشن کمیشن پہنچے تو انھیں قوم کے سامنے سچ لانے کی پاداش پر پارٹی سے ہی نکال دیا گیا۔

پھر جاوید ہاشمی نے یکم ستمبر 2014 کو جب اسلام آباد میں اُس وقت کی منتخب حکومت مسلم لیگ ن کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے ساتھ دھرنا دینے کے خلاف بیان دیا تو اُن کی پارٹی رکنیت معطل کردی گئی۔ عمران خان کی جواب طلبی پر انھوں نے پارٹی عہدے سے استعفیٰ دے کر اپنی راہیں پی ٹی آئی سے جدا کرلیں اور بتایا کہ کیسے عمران خان کے اردگرد وہ لوگ جمع ہوگئے ہیں جن کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں اور پارٹی کا مشکل وقت شروع ہوگیا ہے۔ پھر مستعفی ہونے کے بعد انھوں نے کئی پارٹی رازوں سے پردہ اٹھایا جن کی تحریک انصاف والے تردید کرتے رہے۔

اسی طرح جسٹس ریٹائرڈ وجہیہ الدین کے اختلافات پارٹی میں 2013 میں تب شروع ہوئے جب انھوں نے پرویز خٹک اور جہانگیر ترین پر انٹرا پارٹی انتخابات پر اثر انداز ہونے کے الزامات لگائے اور عمران خان کو ان دونوں رہنماؤں کی پارٹی ممبرشپ منسوخ کرنے کا مشورہ دیا لیکن اُلٹا جسٹس ریٹائرڈ وجہیہ الدین کی پارٹی رکنیت منسوخ کردی گئی۔ پھر انھوں نے 2016 کو پارٹی عہدے سے باقاعدہ استعفیٰ دے دیا اور بتایا کہ اب اُن جیسے نظریاتی لوگوں کے لیے پارٹی میں کوئی جگہ نہیں جنھوں نے آئین و قانون کی بالادستی کے لیے کام کیا۔ ایک حالیہ ٹی وی پروگرام میں جو کچھ خان صاحب کے متعلق بیان کیا وہ کسی سے ڈھکا چُھپا نہیں۔

فوزیہ قصوری جو پی ٹی آئی کی خاتون بانی رکن تھیں، انھوں نے بطور صدر خواتین وِنگ 17 سال پارٹی کی خدمت کی لیکن 2018 میں اُنھوں نے یہ کہہ کر پارٹی سے استعفی دے دیا کہ عمران خان نے پارٹی کی باگ ڈور اُن الیکٹ ایبلز کے حوالے کردی ہے جن کے خلاف تحریک انصاف اپنے قیام سے ہی لڑی ہے۔ فوزیہ قصوری نے یکم اپریل 2018 کی اپنی ایک ٹوئٹ میں عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کے جہاز کو سنبھالیں اِس سے  پہلے کہ یہ الیکٹ ایبلز پی ٹی آئی کو ڈبو دیں۔ گویا فوزیہ قصوری نے بھی یہی کہا کہ عمران خان ایک مافیا کے نرغے میں آگئے ہیں۔

احمد جواد پر آجائیے جو عمران خان کے قریبی ساتھی رہے، پارٹی منشور بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انھیں پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کا عہدہ دیا گیا لیکن جب انھوں نے پارٹی اجلاس میں چند تجاویز پیش کیں جو عمران خان کو پسند نہ آئیں تو انھیں آہستہ آہستہ سائیڈ لائن کردیا گیا اور پارٹی کے خلاف آواز اٹھانے پر بالآخر انھیں پارٹی سے ہی نکال دیا گیا۔ پھر احمد جواد نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا۔ بتایا کہ کیسے عمران خان اُن لوگوں کے نرغے میں آگئے ہیں جن کا پارٹی سے تعلق نہیں تھا۔ کیسے مخالفین کےخلاف سوشل میڈیا کیمپینر چلائی جاتی ہیں اور اسی طرح دیگر معاملات سے پردہ اٹھایا۔

نور عالم خان نے جب قومی اسمبلی میں عمران خان سے سوال کیا اور پہلی تین لائنوں میں بیٹھے ممبران کے نام ECL میں ڈالنے کی تجویز دی تو انھیں پارٹی پالیسی پر تنقید کرنے پر پہلے تو شوکاز نوٹس دیا اور پھر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے بھی اُن کا نام نکال دیا گیا۔

حال ہی میں فردوس عاشق اعوان نے ایک نجی نیوز چینل پر انٹرویو دیا اور پارٹی کی اندرونی لڑائیوں پر ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے راز اُن کے سینے میں دفن ہیں اور وہ ان رازوں پر سے پردہ اٹھا کر خان صاحب کی مشکلات میں اضافہ نہیں کرنا چاہتیں لیکن انھوں نے اندرونی سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ کیسے لابی بنا کر ایک گینگ نے انھیں عہدے سے ہٹوایا۔

معاملہ یہاں نہیں رکتا بلکہ اسی طرح عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو اُس وقت کی منتخب حکومتوں کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے کے لیے سینئر صحافی حامد میر کے شو کیپیٹل ٹاک کا پلیٹ فارم استعمال کیا لیکن جب وہ وزیراعظم بنے تو حامد میر صاحب کی تنقید برداشت نہ ہوئی اور پھر جو ان کے ساتھ ہوا وہ ہم سب جانتے ہیں۔

اسی طرح تجزیہ نگار محسن بیگ جو عمران خان کے ساتھ جہازوں میں گھومتے اور پارٹی معاملات میں اُن کی مدد کرتے تھے جب وہ عمران خان صاحب ناقد ہوئے تو اُن کے ساتھ جو ہوا وہ بھی پوری دنیا نے دیکھا۔

یہاں حفیظ جالندھری کا وہ شعر یاد آیا جو یہ تمام حضرات جن کا اوپر ذکر ہوا وہ شاید کبھی سوچتے ہوں گے ۔۔۔

؂ وفا کا لازمی تھا یہ نتیجہ

سزا اپنے کیے کی پا رہا ہوں

ترین گروپ کو دیکھ لیں تو وہاں اراکین نے جہانگیر ترین سے وفاداری کا حلف لے رکھا ہے اور چُپ سادہ رکھی ہے مگر وقت آنے پر یہ گروپ بھی PTI کے خلاف اپنی خاموشی توڑے گا۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسی کیا بات ہے جب سیاسی معاملات میں سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے تو کہاں عمران خان صاحب کمی پیشی کردیتے ہیں کہ اپنے ہی لوگ اتنے مخالف ہوجاتے ہیں؟

دوسری جماعتوں میں بھی اندر سے اختلافی آوازیں اٹھتی ہیں مثال کے طور پر مصطفی نواز کھوکھر نے یوسف رضا گیلانی پر سینیٹ میں اسٹیٹ بینک سے متعلق بل پاس ہونے کے موقع عدم حاضری پر تنقید کی لیکن اُن کو پارٹی سے نہیں نکالا گیا۔ اسی طرح مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے پیپلزپارٹی کا ظہرانہ کیا تو اُس پر اگلے روز مسلم لیگ ن کے نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے تنقید کی مگر انھیں کوئی شوکاز جاری نہیں کیا گیا۔ مسلم لیگ ن تو یہاں تک کہتی ہے کہ جب ان کے قائد نواز شریف جیل میں تھے تو اُن کی پارٹی متحد رہی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوئی لیکن اگر خان صاحب پارٹی میں نہ رہے تو پی ٹی آئی کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔

غور طلب بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی اگر اپنے آپ کو جمہوری پارٹی کہتی ہے تو آخر کیوں پارٹی کے اندر سے اٹھنے والی اختلافی آوازوں کو برداشت نہیں کرپاتی؟ کیوں میڈیا کی تنقید برداشت نہیں کرپاتی؟ ذرا سوچیے! وہ کپتان جس نے 22 سال کی سیاسی جدوجہد میں اپنے مخالفین پر کھل کر تنقید کی جب وزیراعظم بننے کے بعد اُس پر تنقید شروع ہوئی تو اس کی اسپورٹس مین اسپرٹ جواب دے گئی؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔