’ دو روز سے کچھ نہیں کھایا’، یوکرین میں پاکستانی طالبعلم کی جیو ڈیجیٹل سے گفتگو

زیر نظر تصویر عبدالہادی کی اجازت سے ان کی فیس بک سے لی گئی ہے
زیر نظر تصویر عبدالہادی کی اجازت سے ان کی فیس بک سے لی گئی ہے

روس اور یوکرین کے درمیان تنازع شدت اختیار کرنے کےبعد روسی صدرولادیمیر پیوٹن نے بلآخر 24 فروری کو یوکرین کے خلاف طاقت کا بھرپوراستعمال کرتے ہوئے اس پر حملہ کردیا اورروسی افواج نے یوکرین کے دارالحکومت کیف کو نشانے پر رکھا۔

دونوں ممالک کے درمیان حالیہ تنازع کے بعد جہاں یوکرین کے شہری دربدر ہوئے ہیں وہیں یوکرین میں موجود غیرملکی بھی شدید پریشانی سے دوچار ہیں جن میں پاکستانی طلبہ بھی شامل ہیں جو کسی طرح سے یوکرین چھوڑنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

ایسے ہی پاکستانی طلبہ میں شامل کراچی کےعبدالہادی بھی ہیں جو لانڈھی کے رہائشی ہیں اور چار سال قبل تعلیم کے سلسلے میں یوکرین گئے تھے۔

25 سالہ عبدالہادی یوکرین کے شہر پولتاوا میں رہائش پذیرتھے اور ان کے گروپ میں تقریباً 100 پاکستانی طالب علم تھے جو روسی حملے کے بعد یوکرین چھوڑنے کی کوششوں میں ٹکڑوں میں بٹ گئے۔

جیونیوز ڈیجیٹل کا عبدالہادی سے رابطہ فیس بک کے  ذریعے ہوا جس میں انہوں  نے جیو کو وائس  نوٹ، چیٹ اور وائس کال کے ذریعے صورتحال سے آگاہ کیا۔

عبدالہادی کی گفتگو

عبدالہادی نے بتایا کہ ‘یوکرین پر روس کے حملے کے بعد شروع میں ہم کافی محفوظ تھے لیکن حملے کے دوسرے روز اچانک ہمیں شہرچھوڑنا پڑا جس کے لیے ہمارے پاس کسی ٹرانسپورٹ کا ٹکٹ بھی نہیں تھا’۔

عبدالہادی کی جانب سے جیو ڈیجیٹل کو بھجی گئیں تازہ ترین ویڈیوز

انہوں نے بتایا کہ‘ ہمارے پولتاوا چھوڑتے وقت وہاں پر شیلنگ شروع ہوگئی اور ہیلی کاپٹر نے پروازیں شروع کریں جب کہ پولتاوا کے ایک پریاتین نامی ہائی وے پر بھی شیلنگ کی گئی’۔

‘اسٹورز پر کھانے پینے کے سامان کی شدید قلت ہے اوراسٹورزخالی ہوچکے ہیں’

عبدالہادی کا کہنا تھا کہ ‘دارالحکومت کیف اور خارکیف شہر میں صورتحال انتہائی خراب ہے، وہاں موجود ان کے کچھ دوستوں نے بتایا کہ خارکیف میں دو غیر ملکی طالب علم بھی ہلاک ہوئے ہیں جن کی شہریت سے متعلق مصدقہ اطلاع نہیں‘۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ‘پولتاوا میں بھی صورتحال انتہائی خراب ہے اوربینک سائبر حملوں کی زد میں ہیں، ایک ایک اے ٹی ایم پرسیکڑوں افراد کی قطاریں ہیں مگر اے ٹی ایم سے پیسے نہیں نکال پارہے جب کہ اسٹورز خالی ہوچکے ہیں لوگوں نے بچی کچی اشیاء کو گھروں میں محفوظ کرلیا ہے جس کے بعد اسٹورز پر کھانے پینے کے سامان کی شدید قلت ہے’۔

عبدالہادی نے بتایا کہ وہ اس وقت لیویو شہر کے لیے سفر کررہے ہیں جس کا انتظام انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کیا اور اس سلسلے میں پاکستانی سفارتخانے نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔

سفارتخانے کے عدم تعاون کی وجہ سے خود سب انتظامات کیے: عبدالہادی

عبدالہادی کا کہنا تھا کہ ‘وہاں (پولتاوا) میں ہمیں سفارتخانے کے عملے نے یقین دہانی کرائی کہ ہم 24 گھنٹے آپ کے لیے دستیاب ہیں لیکن جب عملے سے رابطہ کیا گیا تو کوئی فون نہیں اٹھارہا جس کی وجہ سے سفر کے لیے تمام طلبہ نے خود انتظامات کیے’۔

انہوں نے مزید بتایا کہ‘ سفارتخانے نے کسی بھی طرح ٹرنوپل شہر پہنچنے کی ہدایت کی لیکن ہمارے پاس کوئی پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت نہیں تھی جس پر سفارتخانے سے ٹرانسپورٹ کی درخواست کی لیکن عملے نے یہ کہا کہ ہماری اگلی ہدایت کا انتظار کریں اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں کیا گیا’۔

اے ٹی ایم کے اطراف کی صورتحال

عبدالہادی نے کہا کہ‘ ان کے اور ساتھی طلبہ کے پاس تقریباً پیسے ختم ہوچکے ہیں، لیویو جانے کے لیے ان کے ساتھ 20 ساتھی طلبہ ہیں، موجودہ صورتحال میں ٹرین کا جو ٹکٹ انہیں معمولی رقم پر ملتا تھا لیکن ان حالات میں انہیں ایک ٹکٹ 200 ڈالر کا خریدنا پڑا’۔

ان کا کہنا تھا کہ‘ پولتاوا سے تقریباً ہر شخص ہزار ہزار ڈالر خرچ کرکے لیویو پہنچا ہے جہاں پاکستانی سفارخانے کا سیل قائم ہے لیکن وہاں سے بھی کوئی جواب موصول نہیں ہورہا’۔

’ 26 فروری کی فلائٹ کے لیے ٹکٹس کرائیں لیکن اس سے پہلے ہی حملہ ہوگیا’

انہوں نے کہا کہ ‘اس تمام صورتحال میں بڑی غلطی پولتاوا کے کالج انتظامیہ کی بھی ہے جنہوں نے صورتحال سے بے خبر رکھا جب کہ پیر کے روز پاکستانی سفارتخانے سے پیغام ملا کہ جتنی جلدی ہو یوکرین چھوڑ دیں جس کے بعد 26 فروری کی فلائٹ کے لیے ٹکٹس کرائیں لیکن اس سے پہلے ہی حملہ ہوگیا’۔

جیو ڈیجیٹل کا عبدالہادی سے رابطہ فیس بک کے ذریعے ہوا/ ویڈیو اسکرین گریب
جیو ڈیجیٹل کا عبدالہادی سے رابطہ فیس بک کے ذریعے ہوا/ ویڈیو اسکرین گریب 

عبدالہادی کا کہنا تھا کہ‘بدھ 23 فروری کے روز پاکستانی سفیر نے پیغام دیا کہ فوری یوکرین چھوڑ دیں ورنہ ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے لیکن ان کے پیغام کے اگلے ہی روز حملہ ہوا جس کے بعد سفارتخانے کو ٹرانسپورٹ کے لیے کال کی جس پر قونصلر اسٹیٹ نے کہا کہ ہمارے کہنے کے باوجود آپ نے ملک کیوں نہ چھوڑا’۔

انہوں نے کہا کہ ‘پاکستانی سفیرسے رابطے پر انہوں نے جواب دیا کہ پولتاوا میں موجود پاکستانی طلبہ سے متعلق ہمارے پاس کوئی اطلاع نہیں’۔

صرف پاسپورٹ اور ویزہ لیا،  سارا سامان  چھوڑ کر جانا پڑا: پاکستانی طالب علم

عبدالہادی کا کہنا تھا کہ‘ ہنگامی صورتحال کی وجہ سے ہماری ترجیح صرف شہر چھوڑنا ہے اور ہم کسی بھی صورت میں آج 26 فروری کو بارڈر کراس کرکے پولینڈ جانے کی کوشش کررہے ہیں، اس کوشش میں ساتھی طلبہ اور میں نے دو روز سے کچھ نہیں کھایا’۔

انہوں نے کہا کہ‘ روس کے حملے کے بعد افراتفری مچنے سے مجھے اور ساتھیوں کو فوری طور پر شہر چھوڑنا پڑا جس وجہ سے ہم صرف پاسپورٹ اور ویزہ ساتھ لے کر روانہ ہوئے، مجھے اپنا سارا سامان پولتاوا میں ہی چھوڑنا پڑا حتیٰ کہ یوکرین میں شدید سردی کی وجہ سے بھی ہم مشکل سے دوچار ہیں’۔

فوٹو: عبدالہادی فیس بک
فوٹو: عبدالہادی فیس بک 

آخر میں عبدالہادی نے کہا کہ وہ اوران کے ساتھی طالبعلم انتہائی مشکل میں ہیں، موبائل فونزمیں چارجنگ نہ ہونے کی بنا پر وہ اس سے زیادہ تفصیلات بیان نہیں کرسکتے، ان کا گھروالوں سے بھی کم رابطہ ہے، بس اس وقت ان کی پہلی ترجیح یوکرین چھوڑنا ہے جس کے لیے وہ مسلسل کوشش کررہے ہیں۔

یوکرین میں پاکستانی سفیر نویل کھوکھر کا بیان

دوسری جانب ٹوئٹر پر جاری بیان میں یوکرین میں پاکستانی سفیر نویل کھوکھر نے کہا کہ یوکرین میں 3000 پاکستانی طلبہ تھے جن میں سے اکثریت کو نکالا جاچکا ہے اور اس وقت یوکرین میں 5 یا 600 طلبہ رہ گئے ہیں جب کہ 50 تا 60 طلبہ کو دو سے تین گروپس میں آج پولینڈ روانہ کیا جائے گا۔

انہوں  نے بتایاکہ ٹرنوپل میں ہمارے پاس 35 طلبہ ہیں جنہیں جلد پولینڈ بھجوایاجا رہا ہے، مشکلات کے باوجود اپنی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔

پاکستانی سفیر کا  کہنا تھا کہ یوکرین میں فضائی راستے بند ہیں اور شہروں میں گولیاں چل رہی ہیں، بینک نظام ٹھپ، ایندھن کی فراہمی اور ٹرانسپورٹ سسٹم بند ہے۔

روس اور یوکرین کے درمیان تنازع کیا ہے؟

2014 میں یوکرین میں بڑے پیمانے پر مظاہر ے ہوئے اور روس کے حمایت یافتہ یوکرینی صدر کو عہدے سے ہٹادیا گیا، ان مظاہروں کے دوران روس نواز باغیوں نے روسی سرحد کے قریبی علاقوں میں اپنا کنٹرول قائم کیا اور پھر روس نے یوکرین کے علاقے کریمیا سے الحاق کا اعلان کردیا۔

بعد ازاں کریمیا میں روس سے الحاق کے حوالے سے ریفرنڈم ہوا جس میں عوام نے روس کے ساتھ الحاق کی توثیق کی تاہم یوکرین اور مغربی ممالک اس ریفرنڈم کو نہیں مانتے۔ اس الحاق کے بعد سے مشرقی یوکرین میں روس کے حمایت یافتہ جنگجو یوکرینی فوج سے اب تک لڑتے آرہے ہیں اور اس تنازع میں اب تک 14 ہزار اموات ہوچکی ہیں۔

روس یوکرین سے کیا چاہتا ہے؟

دسمبر 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یوکرین بھی روس سے علیحدہ ہوگیا تھا تاہم صدر پیوٹن نے اسے ’تاریخی روس کی تقسیم‘ قرار دیا تھا۔ 2014 میں روس نے یوکرین کے ایک بڑے علاقے کریمیا سے الحاق کرلیا۔

گزشتہ برس ایک بار پھر پیوٹن نے کہا کہ روسی اور یوکرینی ایک قوم ہیں۔ انہوں نے یوکرین کے موجودہ حکمران پر روس مخالف مہم چلانے کا الزام بھی لگایا۔

روس اس بات سے بھی خائف ہے کہ 2015 میں ہونے والے منسک معاہدے پر عمل نہیں کیا گیا اور مشرقی یوکرین کے علیحدگی پسند علاقوں میں آزادانہ و شفاف الیکشن نہیں کرائے گئے۔

مزید خبریں :