Time 27 فروری ، 2022
بلاگ

یوکرین قدم بڑھاؤ، ہم تمھارےساتھ ہیں!

سابق آمرجنرل ریٹائرڈپرویزمشرف کی جانب سے جلاوطنی پرمجبور اس دور کے وزیراعظم میاں نوازشریف جب پہلی بارجدہ سے دبئی پہنچے تو ہر شخص یہ جاننا چاہتاتھاکہ وہ پاکستان کب جائیں گے؟اس وقت میاں نوازشریف سے جب کہا گیا کہ لوگ آپ کی وطن واپسی اور دلیرانہ اقدامات کے منتظرہیں توانہوں نے بے ساختہ مسکراہتے ہوئے کہا تھاکہ 'لوگ کہتے تھےقدم بڑھاؤ نوازشریف ہم تمھارے ساتھ ہیں، جب میں نے قدم بڑھایا اور مُڑکردیکھا تو کوئی بھی پیچھے نہیں تھا'۔

کچھ ایسی ہی صورتحال آج یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کو درپیش ہے جن کو مغرب نے روس سے بھِڑنے پر اُکسایا مگراب زیلنسکی پیچھے مُڑ کر دیکھ رہے تو کوئی بھی ان کے ساتھ نہیں ۔

یوکرین کے صدر کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں،جس یورپی یونین کا رکن بننے کا وہ خواب دیکھا کرتے تھے اور جس نیٹو کا اتحادی ہوکر اپنی طاقت مضبوط ہونے کا تصور کیا کرتے تھے ،آج ان کے پیچھے کوئی بھی نہیں، کوئی بھی نہیں جو ان کے ملک کو اُس روس کی پیش قدمی سے بچائے جس کی فوج دارلحکومت کیف تک پہنچ گئی ہےاور کسی بھی وقت انکی حکومت کا تختہ الٹ کر اپنا من پسند شخص صدارتی محل میں بٹھاسکتی ہے۔

صدرزیلسنکی کو یورپ اور امریکا اگر کچھ دے رہے ہیں تو وہ ہیں ڈھیروں تسلیاں،مَنوں دلاسے، یہ یقین کہ ہم اپنے اتحادی کا ہر قیمت پر دفاع کریں گے،یہ باتیں شاید زیلنسکی کا حوصلہ بڑھانے کے بجائے دل چھوٹا کررہی ہیں۔ ان کا دل اس لیے بھی بیٹھا جارہا ہےکہ مغربی ممالک نےنارڈ اسٹریم 2 سے لے کر صدر پیوٹن تک پر اقتصادی پابندیاں تو لگادیں مگر یوکرین کے لیے زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔زیلنسکی یا بحران کا شکار یوکرینی عوام ،روس پراقتصادی پابندیوں کو اچاربناکر چاٹ نہیں سکتے۔

پانی سرسے گزرا تو ہے زیلنسکی کو یقین ہوچکا ہےکہ نہ تو یورپ اپنی فوج روس کیخلاف یوکرین میں اتارےگا اور نہ ہی امریکا۔اس سب کے باوجود کہ یہی امریکا اور یورپ روسی فوج کی یوکرین پر چڑھائی کی تاریخ پر تاریخ دے رہے تھے۔

سوال یہ ہے کہ آخر امریکا جس نے افغانستان اور عراق میں لڑنے کے لیے اپنے لاکھوں فوجی بھیجے،اسے یوکرین کے میدان میں روس سے لڑنے میں کیا مسئلہ ہے؟، وہ نیٹو اتحاد جو ہر قدم پر امریکا کےشانہ بشانہ تھا،آج وہ اپنی منظم ترین فوج اور جدید ترین ہتھیاروں کو روس کیخلاف استعمال کرنے سے ہچکچا کیوں رہا ہے؟آخر کیوں امریکا نے یوکرین میں موجود اپنے فوجیوں کو ڈٹ جانے کا حکم نہیں دیا۔ایک ایسے لمحے کہ جب یوکرین کو انکی شاید سب سےزیادہ ضرورت تھی، مشکل میں ساتھ دینے کے بجائے وہ یوکرین چھوڑ کیوں گئے؟ صدر زیلنسکی تنہا کیوں رہ گئے؟

شاید ان سب باتوں کا جواب صدر بائیڈن کے ایک جملے میں موجود ہے جو کچھ روز پہلے انہوں نے کہا تھا کہ 'ہمیں دنیا کی سب سے بڑی افواج میں سے ایک کا سامنا ہے ۔یہ بہت مشکل مرحلہ ہے اورصورتحال کسی بھی لمحے بگڑسکتی ہے'۔حقیقت ہے بھی یہ کہ روس اورامریکا کی لڑائی یکطرفہ تباہی پرختم نہیں ہوگی، یہ تیسری عالمی جنگ ہوگی جس کا روس ہی نہیں ،یورپ اورامریکا بھی متحمل نہیں ہوسکتے۔

یوکرین کے سابق اداکار اور کامیڈین صدرکو یہ سمجھنے میں دیر لگی۔ وہ آخری لمحے تک کرشمے کے منتظر رہے۔اب سب کچھ ہاتھوں سے نکلتا دیکھا ہے تو صدر زیلنسکی نے امریکا کے صدر جو بائیڈن کو ٹیلےفون کرکے آخری بار فوجی امداد کی اپیل کی مگر اِبکی بار شاید دل اس زور سے دھڑکا کہ ساتھ ہی وہ صدر پیوٹن کےحضور بھی دست بستہ گِڑگِڑائے کہ' یوکرین میں ہر طرف لڑائی ہورہی ہے،آئیں مذاکرات کی میز پربیٹھیں تاکہ لوگوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جائے'۔

اس وقت یوکرین کا مستقبل روس کے ہاتھوں میں ہے، وہ صدر زیلنسکی کو تخت دے ، لٹکائے یا غیرموثر کرکے چھوڑ دے۔ لیکن ایسا ہی ہے تو روس کے صدر پیوٹن طاقت کے زور پر زیلنسکی حکومت کا خاتمے کیوں نہیں کررہے،انتظار کس بات کا ہے؟

شاید پیوٹن چاہتے ہیں کہ صدر زیلنسکی کاغرور دنیا کےسامنے خاک میں ملائیں،انہیں مِنسک مذاکرات کی میز پرپھر لائیں، یوکرین میں روسی اور روس نواز لوگوں کے سامنے انکی ناک رگڑوائیں، روس کیخلاف بنائے گئے قوانین معطل کرائیں اور ان سمجھوتوں پر پھر سے عمل کروائیں جنہیں یوکرین پچھلے 8برس میں نظرانداز کرتا رہا ہے۔لگتا ہے وہ یہ منوانا چاہتے ہیں کہ یوکرین سے آزادی لینے والے ڈونئیسک اور لوہانسک کی خودمختاری تسلیم کی جائے گی۔اور کرایمییا کاپانی بند کرنے کی انکےنزدیک جنگ پر مجبور کرنے کی غلطی دہرائی نہیں جائے گی۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ ، حقیقت میں ولادیمر پیوٹن کا کلیجہ اس وقت ٹھنڈا ہوگا جب یوکرین کان پکڑ کراقرار کرے گا کہ وہ یورپی یونین اور نیٹو کا حصہ بننے کا کبھی خواب بھی نہیں دیکھے گا۔

اس پوری صورتحال نے یوکرین کو کتنا ہی مایوس کیا ہوا، یوکرین کے پڑوسیوں کا دفاع مضبوط بنا کر امریکا نے یورپ اور نیٹو رکن ممالک کو ایک پیغام ضرور دیا ہے اور وہ یہ کہ بریگزٹ ہونے کے بعد یورپی یونین کے رکن ممالک کو روس سے پینگیں بڑھانے کی ضرورت نہیں، اور یہ بھی کہ اگر یورپ کو روس کیخلاف قدم بڑھانے کا کہا جائے تو وہ یقین رکھے کہ امریکا اُس کی اقتصادی اور دفاعی مدد کے لیے پیچھے موجود رہے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔