Time 19 مارچ ، 2022
بلاگ

توشی کازو ایسومورا، خدا نگہبان

توشی کازو ایسومورا نے 1984 میں جاپان کی وزارت خارجہ میں شمولیت اختیار کی تھی —فوٹو: فائل
توشی کازو ایسومورا نے 1984 میں جاپان کی وزارت خارجہ میں شمولیت اختیار کی تھی —فوٹو: فائل

سیاست اور خارجہ پالیسی میں دلچسپی رکھنے والے، وکی لیکس کے سبب، ایک نئی دنیا سے آشنا ہیں۔ وہ تہہ در تہہ چھپی دنیا جو سفارتکاروں کے گرد گھومتی ہے۔ مختلف ممالک کے وہ نمائندے جو بظاہر چمچاتی گاڑیوں میں اہم تقاریب میں شریک ہوتے ہیں، حکومتی شخصیات، اعلی پایہ کے سیاستدانوں، چوٹی کے صنعت کاروں سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور کبھی کبھار میڈیا کو انٹرویو میں سب اچھا ہے کہہ کر دامن بچالیتے ہیں۔ 

اس سب کے باوجود یہی وہ سفارتکار ہوتے ہیں جو ملکوں میں ہونے والے واقعات کی گہرائی میں جا کران پر ایسی رپورٹس تیار کرکے اپنے ممالک کو بھیجتے ہیں جو عام آدمی ہی نہیں ان حکومتی شخصیات، سیاستدانوں اور صنعتکاروں کو بھی معلوم نہیں ہوتیں جو خود کو باخبر ترین سمجھتے ہیں۔

کراچی میں جاپان کے قونصل جنرل توشی کازو ایسومورا کے علاوہ پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا سفارتکار ہو جس نے اپنی سرکاری ملازمت کا بیشتر حصہ مختلف حیثیتوں میں یہیں گزارا ہو۔

توشی کازو ایسومورا نے 1984 میں جاپان کی وزارت خارجہ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ پہلی تعیناتی ہی 7 سمندر پار پاکستان میں ہوئی جہاں پہلا ٹاسک اردو زبان سیکھنا،ملک اور معاشرے کو سمجھنا اور لوگوں سے روابط مضبوط کرنا ٹہرا، یہ وہی دور تھاجب آمر وقت جنرل ضیاالحق اپنے تئیں ایک نیا پاکستان بنا رہے تھے جس کے رگ وپہ میں انتہاپسندی کا ناسور اتارا جارہا تھا۔ سیاست ایک بار پھر ڈرائنگ رومز تک محدود کی جا چکی تھی اور محمد خان جونیجو کی صورت میں سندھ کی ایک شخصیت کو وزیراعظم بنا کر یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکانے والا شخص سندھ کی محبت میں کس قدر گرفتار ہے۔

ایسومورا نے اس ماحول میں لاہور کے اورئنٹل کالج میں اردو سیکھنا شروع کی۔اس دور کے طلبہ کو ان کا دھیمہ لہجہ، سادگی پسندی اور جوڈو میں ماسٹرکی حیثیت آج بھی یاد ہے۔ خوبرو اور درازقد نوجوان کو دیکھ کرکئی کالج کی لڑکیاں عاشق ہوئیں اور ایک نے تو ہمت کرکے سرراہ ہاتھ بھی تھام لیا۔ بھلا ہوخدائی فوجداروں کا جنہوں نے ایسومورا کی اس حسینا سے جان چھڑوائی ورنہ شاید ایک اور جاپانی سفارتکار عظمت اتاکا کی طرح پاکستانی خاتون کے عشق میں گرفتار، گھوڑے پر بیٹھ دلہنیا لینے پہنچ گیا ہوتا۔

ایسومورا کا یہ وقت لاہور اور اسلام آباد میں سیاسی سرگرمیاں دیکھنے میں گزرا جہاں پیپلزپارٹی کے جیالے بے نظیربھٹو کی آمد کے بعد اپنی توانائیاں جمع کر کے ضیاالحق سے سیاسی انتقام لینے کے پرتول رہے تھے۔ شُستہ اردو جاننے کے سبب ایسومورا پیپلزپارٹی اور لیگی رہنماوں کے قریب ہوگئے۔ چند ہی برسوں میں وہ تاریخی واقعات ہونا تھے جنہوں نے پاکستانی تاریخ کا دھارا آمریت سے جمہوریت کی طرف موڑا تھا۔

یہ جاننا دلچسپ ہوگا کہ توشی کازو ایسومورا نے 10 اپریل 1988 میں ہوئے اوجھڑی کیمپ دھماکے کی رپورٹ ٹوکیوبھجوانے میں کردار ادا کیا کیونکہ وزیراعظم محمد خان جونیجو دو ایسے افراد کو ان دھماکوں کا سزاوار سمجھتے تھے جو اب اس دنیا سے جاچکے ہیں اورانہی کو سزا دینے کی مبینہ کوشش حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے اسباب میں سے ایک بنی تھی۔ اس وقت جونیجو صاحب اپنی دھواں دھار پریس کانفرنس میں مصروف تھے کہ اسے ادھوری چھوڑکر صحافی اس ہنگامی پریس کانفرنس کی طرف چلتے بنے تھے جو ضیاالحق نے نام نہاد جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے لیے بلا لی تھی۔

شاید اس سے بھی اہم ٹوکیو بھیجا گیا وہ سفارتی پیغام ہو جو چند ماہ بعد یعنی 17 اگست 1988 کو اس وقت بھیجا گیا تھا جب جنرل ضیاالحق کا طیارہ فضا میں دھماکے سے ٹکڑے ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تھا اور ان کے ساتھ کئی اہم فوجی افسر اور امریکی سفیرآرنلڈ رافیل بھی چل بسے تھے۔ یہ وہی واقعہ تھا جس پر ملک کے فوجی سربراہ کے بیٹے اعجاز الحق نے دعویٰ کیا تھا کہ طیارے کی تباہی تین طریقوں سےیقینی بنائی گئی تھی۔

 پائلٹس کو بے ہوش کرنے کے لیے اعصاب شکن نرو گیس ضیاالحق کو تحفے میں دی گئی ٹرافیوں میں رکھی گئی تھی جبکہ آموں کی پیٹیوں میں بارود بھی تھے۔ یہی نہیں طیارے کو نشانہ بنانے کے لیے مشتبہ پراجیکٹائل بھی استعمال کیا گیا۔ واقعے کی تحقیقات رکوانے کے لیے اس قدر دباؤ تھا کہ ملک کے فوجی سربراہ کے بیٹے پرواضح کیا گیا تھاکہ خاموشی اختیار نہ کی تو اپنے سیاسی کیریئر سے ہاتھ دھونا پڑیں گا۔ اعجاز الحق کے بقول دباؤ ڈالنے میں امریکا بھی بلواسطہ شریک تھا۔

توشی کازو ایسومورا نے ہوا کا رخ دیکھ لیا تھا کہ اب پیپلزپارٹی کی حکومت بنے گی اور ہوا بھی یہی کہ جن ٹھالی بیٹھے جیالوں کی خوش گپیوں میں وہ شریک ہوا کرتے تھے، ان میں سے کئی وفاق میں اہم وزیر بن گئے۔

اس دور کے سرکردہ جیالوں میں سے ایک نے مجھے بتایا کہ اس دور میں جاپان کے سفیر نے ایسومورا سے خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ پنڈی ٹرین مارچ کے دوران بے نظیر بھٹو سے ملنا چاہتے تھے۔ ایسومورا ہی کے احترام میں دونوں جاپانی سفارتکاروں کو گوجر خان سے پنڈی تک بینظیر کے کمپارٹنمنٹ میں سفر کا موقع دیا گیا تھا۔

جاپان حکومت نے جب پاکستان میں مختلف منصوبوں میں دلچسپی ظاہر کی تو انہی ایسومورا کے ذریعے جاپانی سفیر نے مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم سے ملاقات کی تھی جنہوں نے پراجیکٹس کی تفصیلات طے کرنے کی ذمہ داری فوری طورپر آصف زرداری کو سونپ دی تھی۔

ایسومورا چونکہ لاہور اور اسلام آباد میں طویل عرصے رہے اس لیے چوہدریوں کی روٹی شوٹی کھائی اورانہیں ٹُونا اور سُوشی بھی کھلائی، دانیال عزیز سمیت ق لیگ سے چھلانگیں لگا کر ن لیگ میں جانیوالوں کو بھی وہ بہت قریب سے جانتے ہیں۔ شریف برادران سے بھی ملاقاتیں رہیں جن کے میگاپراجیکٹس سے انہوں نے بدلتا لاہور دیکھا۔پرویز مشرف کی آمریت، پیپلزپارٹی اورشریفوں کا تیسرا دوربھی انہوں نے یہیں گزارا۔ان ادوار میں جاپان حکومت نے پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں تعلیم،صحت اورترقی کے کئی غیرمعمولی منصوبے مکمل کیے۔

توشی کازو ایسومورا کی بدقسمتی کہیں یا خوش قسمتی کہ وہ عمران خان حکومت کےدور میں بدلتا 'مبینہ نیا' پاکستان پوری طرح نہیں دیکھ پائیں گے۔ جیسے تحریک عدم اعتماد کی تیاری ہے ،شاید ہم بھی اس سے محروم ہی رہ جائیں۔

ایسومورا 21مارچ کو اپنے وطن سدھار رہے ہیں۔ حسن اتفاق دیکھیے کہ یہ نوروز کا دن ہوگا جب پاکستان، وسط ایشیا،ایران اورعراق سمیت کئی عرب ممالک میں لوگ سال نوکی خوشیاں مناتے ہیں۔ وہ ایک ایسے برس بھی رخصت ہورہے ہیں جب پاکستان اورجاپان کےتعلقات کی سترویں سالگرہ کا جشن منایا جارہا ہے۔ سرکاری اور نجی سطح پر ان گنت تکمیل شدہ منصوبے ہیں جو یہاں انکی یاد دلائیں گے اور ایک یادوں کی برات ہے جو وہ اپنے ساتھ لے جائیں گے۔

 توشی کازو ایسومورا، خدا نگہبان۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔