Time 19 مارچ ، 2022
پاکستان

کیا معاملات ’’مائنس ون‘‘ کی طرف جارہے ہیں؟

 ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم کی حکومتی ٹیم میں’’ہارڈ لائنرز اور سافٹ سپوکن‘‘ کے دو گروپ بن رہے ہیں بالخصوص عدم اعتماد کی تحریک میں حکومتی اتحاد اور حکومتی جماعت کے اراکین اسمبلی کے بارے میں ردعمل حوالے سے گزشتہ چند دنوں سے بعض وزراء سخت زبان میں سخت کارروائی کرنے کی باتیں کر رہے ہیں جبکہ وزیراعظم کے ایک معاون خصوصی نے نجی ٹی وی پر ٹاک شو کے دوران اپنی ہی جماعت کے رکن کے بارے میں انتہائی غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کئے بلکہ ایک سے زیادہ مرتبہ گالی دیتے ہوئے بھی ان کا ذکر کیا اور الزامات عائد کئے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی عالیہ حمزہ ملک نے بھی ایک ٹی وی پروگرام کے دوران اپنی ہی جماعت کی منحرف ارکان کو جسم فروش خواتین سے بدتر اور سندھ ہائوس کو جسم فروشی کا اڈہ قرار دیا تھا۔ یقیناً ایسی شخصیات کی جانب سے عدم برداشت کا یہ طرز عمل اور وہ بھی کسی نیشنل میڈیا پر قومی سیاست پر ایک انتہائی منفی رجحانات کا حامل ہے۔

بہرحال ایسے ماحول میں جب صورتحال اشتعال انگیزی کی طرف بڑھ رہی ہے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جو حکومتی جماعت کے وائس چیئرمین بھی ہیں جمعہ کو پریس کانفرنس کے دوران اپنے مخصوص لہجے میں حکومتی جماعت کے منحرف اراکین سے ’’ملتجی‘‘ ہوئے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں۔ انہوں نے خود کو ان کا خیرخواہ اور دوست قرار دیتے ہوئے اپیل کی کہ وہ ٹھنڈے دل سے غور کریں ان کا کہنا تھا کہ میں نوٹوں کی بوریوں اور ہارس ٹریڈنگ کی بحث میں نہیں جاتا۔

وزیر خارجہ نے بلاول بھٹو کے بارے میں بھی اپنے ’’مٹھاس بھرے لہجے‘‘ میں کہا کہ میرا بچہ بلاول بھٹو اور آصف زرداری دونوں ہی ذوالفقار علی بھٹو کی جگہ نہیں لے سکتے۔ گویا شاہ محمود قریشی نے اس پریس کانفرنس میں اپنی گفتگو، صلح جو رویئے اور اپنے ساتھیوں کے اشتعال انگیز بیانات پر معذرت خواہانہ انداز اختیار کرتے ہوئے ’’ صلح کا پرچم لہرا دیا‘‘ یہ الگ بات کہ ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے چہرے کے تاثرات شاہ محمود قریشی کے لب و لہجے اور گفتگو سے قطعی مماثلت نہیں رکھتے تھے۔ 

دوسری طرف پس دیوار دیکھ لینے کے دعویدار وفاقی وزیر داخلہ بعض اندیشوں کے پیش نظر سندھ میں گورنر راج لگانے کے زبردست حامی ہیں اور انہوں نے نہ صرف وزیراعظم کو یہ تجویز دی تھی کہ سندھ حکومت نے ارکان اسمبلی کی جو خریدوفروخت شروع کر رکھی ہے یہ جمہوریت کے خلاف سازش ہے اس لئے ہمیں سندھ میں گورنر راج نافذ کردینا چاہئے صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنی تجویز پر فوری طر پر عملی پیشرفت کیلئے وزیر داخلہ کی حیثیت سے وزیراعظم کو سمری بھی پیش کر دی تھی لیکن ان کی اس تجویز کو پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی بلکہ اس حوالے سے ان پر تنقید بھی شروع ہوگئی ہے اور خود کابینہ کے ارکان اور پی ٹی آئی کے ’’بڑے‘‘ اس تجویز کو ایک ’’ مخصوص تناظر‘‘ میں دیکھ رہے ہیں لیکن ابھی یہ سب کچھ نجی محفلوں اور سرگوشی کے انداز میں ہو رہا ہے بہرحال داخلہ امور کی وزارت ایک مضبوط منصب ہوتا ہے۔ وسیع تر انتظامی معاملات کا۔

ہر چند کہ وزیر داخلہ کی اس تجویز کے ایک دن بعد ہی پی ٹی آئی کے دو ارکان اسمبلی اور چند کارکنوں کی جانب سے سندھ ہائوس پر حملے کی خبریں آگئیں جس پر اپوزیشن کی طرف سے مذمت اور بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آرہا ہے لیکن جمعہ کو وزیراعظم کی سربراہی میں ہونے والے سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں کم وبیش تمام ہی شرکاء نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے یہ موقف بھی اختیار کیا کہ اس غیر جمہوری عمل سے قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں اور معاملات مزید خراب ہوسکتے ہیں جبکہ شاہ محمود قریشی ایک سے زیادہ مرتبہ اس تجویز کی مخالفت کرچکے ہیں۔

تاہم جمعہ کو وزارت خارجہ میں ہونے والی پریس کانفرنس کے دوران شاہ محمود قریشی کے ساتھ بیٹھے ہوئے وزیر اطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے وزیر داخلہ کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ شیخ رشید نے جائز طور پر سندھ حکومت کے غیر آئینی اقدامات سے وفاق کو آگاہ کیا ہے گورنر راج ایک آپشن کے طور پر موجود ہے اگر صورتحال کا تقاضہ ہوا تو پھر دیکھیں گے۔ 

یادش بخیر۔۔ تحریک عدم اعتماد کے ابتدائی دنوں میں حکومتی اتحاد کے بعض راہنمائوں نے ’’ مائنس ون‘‘ کی شکل میں موجودہ حکومت کا آئینی دورانیہ مکمل کرنے کی تجویز بھی پیش کی تھی اور اس ضمن میں حکومتی اتحاد کی اہم جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) کے راہنما اور پنجاب اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے واضح طور پر اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ جمہوری عمل کو جاری و ساری رکھنے کیلئے بھی یہ ضروری ہے کہ پانچ سال کیلئے آنے والی حکومت اپنا آئینی عرصہ مکمل کرے اس لئے اگر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب بھی ہو جاتی ہے تو حکومت کو اپنی مدت ضرور پوری کرنی چاہئے اور اب اس تجویز کی حمایت میں حکومتی جماعت کے اراکین کی جانب سے بھی مطالبے کی شکل میں آوازیں اٹھنی شروع ہوگئی ہیں۔

کراچی سے قومی اسمبلی کے بانی رکن نجیب ہارون نے اس حوالے سے اعلانیہ مطالبہ کیا ہے کہ پارٹی کو قائم دائم رکھنے کیلئے وزیراعظم عمران خان کو اپنے منصب کی قربانی دینی ہوگی۔ نجیب ہارون نے جو عدم اعتماد کی تحریک میں حکومت کا ساتھ دینے کا عزم رکھتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ پارٹی سے اختلاف کے باوجود عمران خان کا ساتھ دیں گے لیکن پارٹی کو بچانے اور دھڑوں میں تقسیم کرنے سے بہتر ہے کہ ہمیں اپنی ذات سے آگے نکلنا ہوگا اور کسی اور شخص کو آگے لانا ہوگا۔ 

دوسری طرف حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے کنونیئر مقبول صدیقی نے بھی اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت بچ سکتی ہے لیکن عمران خان کا وزیراعظم رہنا مجھے مشکل لگ رہا ہے۔

مزید خبریں :