بلاگ
Time 21 مارچ ، 2022

’’پارٹی از اوور ‘‘،یا وقت دعا؟

پاکستان تحریکِ انصاف ( پی ٹی آئی ) کے منحرف یا باغی ارکان قومی اسمبلی کے منظر عام پر آجانے کے بعدایک رائے کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت سیاسی اور اخلاقی طور پر ختم ہو چکی ہے ۔ 

صرف اس کےلئے آئینی کارروائی کا مکمل ہونا باقی ہے ، جس میں پی ٹی آئی کی طرف سے تاخیری حربے استعمال کئے جا رہے ہیں ۔ ان تاخیری حربوں سے پی ٹی آئی کو کچھ حاصل نہیں ہو گا ۔ البتہ سیاسی تصادم میں اضافہ ہو گا ۔ اس سے غیرجمہوری قوتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں ۔ پی ٹی آئی کو چاہئے کہ وہ اس آئینی کارروائی یا عمل کو پر امن طور پر مکمل ہونے دے اور مستقبل کی سیاست میں اپنے کردار کا تعین کرے ۔ اسی میں ہی اس کا فائدہ ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کا فیصلہ پارلیمنٹ میں ہونا چاہئے ، جس میں پی ٹی آئی اپنی اکثریت کھو چکی ہے ۔ اس کو پارلیمنٹ سے باہر کی جنگ نہیں بنانا چاہئے ۔ کوئی اسے اگر پارلیمنٹ سے باہر کی لڑائی بنائے گا تو اس کا یہ رویہ غیر جمہوری اور آئینی عمل کو روکنے کی کوشش قرار پائے گا۔ اپوزیشن نے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئین کے مطابق پیش کی ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد آئی تھی اور انہوں نے اس کا مقابلہ سڑکوں پر کرنے کی بجائے پارلیمنٹ میں کیا تھا یہ ان کے رفقاء کی Political Maturity تھی جس نے انھیں ایسا نہیں کرنے دیا۔ عمران خان کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے لیکن افسوس کہ ان کے مشیر انہیں ایسا نہیں کرنے دے رہے ۔

یہ پی ٹی آئی کی قیادت کا سیاسی اور جمہوری حق ہے کہ وہ اپنے ناراض ، منحرف یا باغی ارکان کو منانے کی کوشش کرے یا انہیں کسی جائز طریقے سے دوبارہ اپنی حمایت پر راضی کرے ۔ اس کےلئے اس کے پاس اب وقت بھی کم رہ گیا ہے ۔ اخلاقی ، سیاسی اور قانونی طور پر یہ بالکل مناسب نہیں کہ منحرف اور باغی ارکان کا گھیرائو کیا جائے ۔ ارکان جہاں قیام پذیر ہوں ، وہاں حملے کئے جائیں یا ان ارکان کو خطرناک نتائج کی دھمکیاں دی جائیں ۔ یہ بھی ہرگز مناسب نہیں کہ ان ارکان کو ثبوت کے بغیر ضمیر فروش کہا جائے اور ان پر الزام لگایا جائے کہ انہوں نے پیسے لے کر پارٹی سے غداری کی ہے ۔ 

ان کے خلاف پارٹی کارکنان کو مشتعل کرکے انہیں نقصان پہنچانے کے حالات پیدا کرنا بھی غیر مناسب ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں پیسہ چلا تھا اور خود محترمہ کی کوششوں سے مہران اسکینڈل سامنے آیا تھا ۔ اس اسکینڈل سے یہ ثابت ہوا کہ محترمہ نے اپنے مخالفین پر جو الزامات عائد کئے تھے وہ درست تھے ۔ سیاست میں صبر بہت ضروری ہوتا ہے ۔ اصل حقائق کبھی نہ کبھی سامنے آہی جاتے ہیں ۔

جہاں تک پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کا معاملہ ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی انہیں منا نہیں سکے گی۔ اس کے مختلف اسباب ہیں ۔ اب وہ حالات نہیں ہیں ، جیسے محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے وقت تھے ۔ ارکان کو پیسے کے لالچ کے علاوہ طاقتور حلقوں کے دبائو کا سامنا بھی تھا ۔ ان باتوں کی بعد میں تصدیق بھی ہو گئی تھی ۔ اس کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو تحریک عدم اعتماد سے بچ گئیں لیکن میرے خیال میں عمران خان کا بچنا مشکل نظر آرہا ہے ۔

 ان کے باغی ارکان نے جو فیصلہ کیا ہے ، اس میں خود پی ٹی آئی کی قیادت کے رویوں ، حکومت کی خراب کارکردگی اور ارکان کے اپنے سیاسی مستقبل جیسے عوامل کا عمل دخل ہے ۔ یہ باغی ارکان اپنا فیصلہ واپس نہیں لیں گے کیونکہ فیصلے کی واپسی کے نتائج سے وہ آگاہ ہیں ۔

یہ بھی پی ٹی آئی کا حق ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد غیر موثر بنانے یا اسے موخر کرنے کے لئے قانونی اور آئینی راستہ اختیار کرے لیکن وہ آئین سے انحراف نہیں کر سکتی ۔ آئین کے آرٹیکل 63 (اے) کی تشریح کے لئے حکومت نے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ملک کے بڑے بڑے آئینی ماہرین اس آرٹیکل کی تشریح کر چکے ہیں اور سب اس بات پر متفق ہیں کہ منحرف ارکان کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹ دینے سے کوئی روک نہیں سکتا اور ان کا ووٹ شمار بھی ہو گا ۔ مجھے امید ہے کہ سپریم کورٹ کی تشریح بھی اس سے مختلف نہیں ہو گی ۔ اگر مختلف ہوگی تو تحریک عدم اعتماد سے متعلق آئینی اسکیم کی بھی ازسر نو تشریح کرنا ہو گی ۔

تحریک عدم اعتماد کا عوامی طاقت سے مقابلہ کرنا کسی بھی طرح جمہوری رویہ نہیں ہے ۔ دیگر سیاسی جماعتیں بھی عوامی طاقت کا مظاہرہ کریں گی تو ملک سیاسی تصادم کی طرف بڑھے گا ، جس کے نتائج ملک اور جمہوری نظام کے لئےخطرناک ہوں گے ۔ اپنے آپ کو حق اور دوسرے کو باطل قرار دینے کا فسطائی رویہ بھی تباہ کن ہے ۔ پی ٹی آئی بھی اسی سسٹم کی سیاسی جماعت ہے ، جس سسٹم کی دیگر سیاسی جماعتیں ہیں۔ ۔ یہ جواز پیش کرنا بھی درست نہیں کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے اور اس تحریک کے حق میں ووٹ دینے والے ’’ گریٹ ‘‘ لوگ ہیں ۔ لہٰذا عوامی طاقت کے ذریعے آئینی عمل مکمل نہیں ہونے دیا جائے گا ۔ اب اس طرح کا راگ بند ہونا چاہئے ۔ یہ اپنے پروپیگنڈا کے جال میں پھنسنے کے مترادف ہے ۔ پی ٹی آئی آئینی عمل مکمل ہونے دے کہ اب اور کوئی حربہ کارگر ہوتا نظر نہیں آ رہا ۔ مسٹر پرائم منسٹر پارٹی از اوور۔

ملک آج اس دوراہے پر کھڑا ہے جہاں تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی کسی فریق کی کامیابی یا ناکامی نہیں ہوگی بلکہ پاکستان کمزور ہوگا اور دونوں صورتوں میں ملک سماجی،معاشی اور سیاسی طو ر پر پیچھے چلا جائے گا۔ وقتِ دعا ہے ! خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔