21 مارچ ، 2022
اکتوبر1989ء میں وزیراعظم بینظیر بھٹو کی کابینہ میں پارلیمانی امور کی وزارت سنبھالنے والے طارق رحیم واپڈا ہاؤس سے ملتان کال کرکے کہتے ہیں فوری طور پر تین ہیلی کاپٹر بھجواؤ،کال منقطع ہوتے ہی ایک اور نمبر ملاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سات جیپیں فوری طور پر مہیا کرو۔
بظاہر یوں لگتا ہے جیسے کسی عسکری نوعیت کی کارروائی کے انتظامات ہو رہے ہیں لیکن یہ کوئی فوجی آپریشن نہیں بلکہ سیاسی کارروائی ہے جس کامقصدپیپلزپارٹی کے تمام ارکان پارلیمنٹ کو جمع کرکے سوات کے پرفضا مقام پر لے جانا ہے تاکہ انہیں وزیراعلیٰ پنجاب میاں نوازشریف کی یلغارسے بچایا جا سکے کیونکہ میاں صاحب ایسی پیشکش کرہے ہیں کہ کوئی رکن اسمبلی انکار نہیں کر پاتا ۔
بینظیر بھٹو کو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالے ابھی11ماہ ہی ہوئے تھے کہ 23اکتوبر1989ء کو ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کروادی گئی اور اس کے ساتھ ہی بے یقینی کے سیاہ بادلوں نے شہر اقتدار کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔237کے ایوان میں پیپلز پارٹی کو 65ووٹوں کی برتری تو حاصل تھی مگر تحریک عدم اعتماد پیش ہوتے ہی حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم 13ارکان قومی اسمبلی سمیت اپوزیشن سے جا ملی۔
آزاد ارکان پارلیمنٹ ساتھ چھوڑنے لگے ۔پارٹی کے اندر بغاوت ہوگئی۔وزیر مملکت طارق مگسی نے استعفیٰ دے دیا۔جہانیاں سے پیپلز پارٹی کے ایم این اے افضل داد واہلہ اور اقلیتی رکن قومی اسمبلی رانا چندر سنگھ ساتھ چھوڑ گئے۔پیپلز پارٹی نے اپنے ارکان پارلیمنٹ کو سوات منتقل کردیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے اپنے ارکان اسمبلی کو مری پہنچا دیا ۔
واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ اس دورمیں ایک پنج تارہ ہوٹل میں ٹھہرائے گئے ارکان پارلیمنٹ کو خوش رکھنے کےلئے جو اسباب تعیش فراہم کئے جا رہے تھے ،آج تو ان کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔جس طرح اپوزیشن جماعتیں حکومتی ارکان کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے سرگرم تھیں،اسی طرح بینظیر بھٹو کی حکومت بھی اپوزیشن کے ارکان پارلیمنٹ کو توڑنے کی سرتوڑ کوشش کر رہی تھی۔
IJIسے تعلق رکھنے والے 3ارکان پارلیمنٹ مخدوم احمد عالم انور،غلام محمد احمد مانیکااور رئیس بشیر نے عدم اعتماد کی تحریک سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے حکومت سے ہاتھ ملا لیا ۔ 28اکتوبر1989ء کو وزیراعلیٰ پنجاب میاں نوازشریف نے الزام لگایا کہ حکومت نے 7ارکان قومی اسمبلی کو اغواکرکے حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے۔سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے ایک MNA خورشید عالم چیمہ کے عزیز و اقارب نے عدالت میں درخواست دائر کی کہ چوہدری پرویز الٰہی نے انہیں زبردستی قید کر رکھا ہے۔عدالت کی طرف سے بیلف مقرر کردیا گیا اور یہ صاحب بازیاب ہوگئے ۔
خورشید عالم چیمہ جو رشتے میں پرویز الٰہی کے خالو لگتے تھے ،وہ عدم اعتماد کے دن ایوان میں آئے تو اپوزیشن ارکان کے ساتھ بیٹھے رہے مگر ووٹنگ کے وقت اچانک اُٹھ کر حکومتی بنچوں میں چلے گئے۔بہر حال حالات و واقعات سے محسوس ہو رہا تھا کہ بینظیر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوجائے گی کیونکہ مقتدر حلقو ں نے بھی اپنا وزن اپوزیشن کے پلڑے میں ڈال دیا تھا۔بے یقینی کی اس فضا میں صرف ایک شخص ایسا تھا جو شرط لگانے کو تیار تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوگی اور اس شخص کا نام تھا آصف زرداری۔
بہرحال یکم نومبر کو قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی قرار داد پر ووٹنگ ہوئی۔MQMکے علاوہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے 4ارکان قومی اسمبلی نے اپوزیشن کا ساتھ دیا۔عابدہ حسین سمیت 3آزاد ارکان اسمبلی نے بھی عدم اعتماد کا اظہارکیا۔ہمایوں اختر نے عد م اعتماد کے حق میں ووٹ نہ دیا۔عبدالولی خان جو ملک سے باہر تھے ،ان سمیت 6ارکان قومی اسمبلی نے ووٹنگ میں حصہ نہ لیا۔اپوزیشن کو اس تحریک کی کامیابی کے لئے 119ووٹ درکار تھے مگر اپوزیشن 107ووٹ لے سکی یوں عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوگئی۔
بعد ازاں بینظیر بھٹو نے اعتماد کا ووٹ لیا تو انہیں 124ووٹ ملے۔ بینظیر کے خیال میں ان کےتحریکِ خلاف عدم اعتماد کے ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن تھے جنہوں نے حکومت گرانے کے لئے 10ملین ڈالر کی خطیر رقم دی تاکہ ارکان پارلیمنٹ کی وفاداریاں خریدی جا سکیں۔ بینظیر بھٹوکے مطابق انہیں معلوم ہوا کہ سعودی عرب سے آنے والے ایک طیارے پر آموں کی پیٹیاں لائی گئی ہیں تو ان کے کان کھڑے ہوگئے کیونکہ سعودی عرب سے کھجوریں تو آسکتی تھیں مگر آموں کی پیٹیاں کیسے بھجوائی جا سکتی تھیں ؟
جانچ پڑتال پر معلوم ہوا کہ ان پیٹیوں میں 10ملین ڈالر بھجوائے گئے ہیں تاکہ بینظیر کی حکومت گرائی جا سکے ۔بینظیر بھٹو نے یہ بات سعودی فرمانروا شاہ خالد کے نوٹس میں لاتے ہوئے گلہ کیا تو انہوں نے کہا ،آپ کے والد میرے بھائیوں جیسے تھے ۔ان کی پھانسی ظالمانہ فعل تھا اور میں نے یہ بات ضیا کو کہی تھی۔میں نے آپ کو اپنی بیٹی کہا ہے،میں اس طرح کی حرکت کبھی نہیں کروں گا،یہ پرائیوٹ گروپ ہیں ۔
حکومت گرانے کے لئے غیر ملکی ہاتھ ملوث تھا یا نہیں،اس بارے میں تو کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی البتہ اندرون ملک خفیہ ہاتھ بہت سرگرم رہے ،بینظیر کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کروانے کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے ،بدترین ہارس ٹریڈنگ ہوئی۔
ملیحہ لودھی اپنی کتاب ’’Pakistan 's encounter with democracy‘‘میں لکھتی ہیں کہ مسلم لیگی رہنما چوہدری نثار کے مطابق آرمی چیف جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ مرزا نے بذات خود ایم کیو ایم کے ووٹ آئی جے آئی کے حوالے کئے۔آئی جے آئی کے قریبی ذرائع کے مطابق جنرل اسلم بیگ نے اپوزیشن لیڈر غلام مصطفیٰ جتوئی اور ایم کیو ایم کے رہنما عمران فاروق کو اپنے گھر بلا کر معاملات طے کروائے۔
پاکستان میں آج تک کسی وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیں ہوئی۔بینظیر بھٹو اور شوکت عزیز کیخلاف عدم اعتماد کی قراردادیں ناکام ہوئیں۔وزیراعظم آئی آئی چندریگر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی حالانکہ یہ بات درست نہیں حقیقت یہ ہے کہ جب صدر سکندر مرزا نے ری پبلکن پارٹی بنا کر نقب زنی کی اور جداگانہ انتخاب سے متعلق قانون سازی کےلئے مطلوبہ ارکان کی حمایت حاصل نہ ہوسکی تو انہوں نے استعفیٰ دے دیا حالانکہ ان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد نہیں لائی گئی تھی۔تو کیا عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو سکے گی؟اس حوالے سے اگلے کالم میں بات ہوگی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔