بلاگ
Time 22 مارچ ، 2022

شائستگی درکار ہے

جارج آرویل انگریزی زبان کا مایہ ناز ناول نگار تھا اس کے اعلیٰ ناول اینیمل فارم اور 1984 ہیں، جن کا مقام صرف انگریزی ادب میں ہی نہیں بلکہ عالمی ادب میں بھی امتیازی ہے، وہ حالات حاضرہ پر بھی اپنی تحریروں کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرتا رہتا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے بعد ایک سیاسی انارکی کی کیفیت تھی۔

 سیاسی اختلافات کے سبب ذومعنی الفاظ میں بہت کچھ کہا جا رہا تھا،اس کے بد اثرات کو محسوس کرتے ہوئے اس نے 1946 میں اپنے شہرہ آفاق مضمون Politics And The English Languageتحریر کیا ۔ اس مضمون میں اس نے سیاست میں ذو معنی اور مختلف المعنی الفاظ کے استعمال پر بحث کی اور اس کے منفی اثرات کو عوام کے سامنے لایا۔ اس کے اس مضمون کے بعد انگریزی زبان کے استعمال بلکہ سیاسی استعمال کے حوالے سے ایک پورا مکتب فکر اس کے نام سے وجود پا گیا۔

جب شہباز گل نے رمیش کمار کو ٹیلی وژن پر ہدفِ دشنام بنایا تو اس کے بعد اس دشنام کو ’’ جائز‘‘ ثابت کرنے کی غرض سے یہ نرالی منطق سامنے لے کر آئے کہ اگر یہ ہی الفاظ انگریزی زبان میں ادا کرتا تو اس پر کسی کو اعتراض نہ ہوتا۔ اس وقت مجھے جارج آرویل کی شدت سے یاد آئی کہ وہاں پر سیاسی زبان کی نوعیت کیا ہونی چاہیے پر1946میں اس پائے کی گفتگو ہو رہی تھی، مکتب فکر وجود میں آ رہے تھے اور ہمارے ہاں یہ صورتحال قائم ہے کہ 2022 میں بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر گالی انگریزی زبان میں دی جائے تو گویا قابلِ قبول ہوتی ہے۔ یعنی صرف دیسی انداز سے اختلاف کیا جا سکتا ہے ورنہ کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ 

رمیش کمار کے ساتھ اس نوعیت کے الفاظ کے استعمال سے ایک دوسرا تاثر بھی نہایت مضبوط طور پر قائم ہوا کہ ان سے اس نوعیت کا رویہ اس لیے اختیار کیا گیا کیونکہ وہ وطن عزیز میں بسنے والے اکثریتی مذہب کے پیروکار نہیں،ان کے ساتھ کسی بھی انداز میں معاملہ کیا جا سکتا ہے ،البتہ اگر شہباز گل اپنے ہی شہر کے کسی دوسرے رکن اسمبلی سے اس نوعیت کی گفتگو کرتے تو ان کو اس کے نتائج بھی بھگتنا پڑتے،بہر کیف اِس واقعے پرپاکستان میں بسنے والے لاکھوں غیر مسلم پاکستانیوں کے دل رنجیدہ ہوئے ہوں گے کیونکہ ان میں ایک خاص احساس کو ایسے واقعات تقویت پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔ جن سے بہر صورت اجتناب برتنا چاہئے۔

یہ پنجاب ہاؤس اسلام آباد کا قصہ ہے۔ رمیش کمار کے پی ٹی آئی میں جانے سے چند دن قبل راقم الحروف، بھائی کھیل داس کوہستانی اور دیگر افراد کی موجودگی میں رامیش کمار نوازشریف سے بضد تھے کہ وہ دورہ کراچی میں ان کے گھر قیام کریں۔ نواز شریف نے کہا کہ میں تو وہاں پر گورنر ہاؤس میں بھی قیام نہیں کرتا، تو وہ بولے کہ میرا گھر سیکورٹی کے حوالے سے گورنر ہاؤس سے بھی زیادہ محفوظ ہے کیونکہ وہ سعودی عرب کے قونصل خانے کے ساتھ ہے، نوازشریف نے گورنر ہاؤس کے ذکر پر ایک دو شگفتہ باتیں زبیر عمر سے کہیں اور بات ہلکے پھلکے انداز میں ختم ہوگئی۔

حالاں کہ اس وقت نواز شریف اور وہاں موجود دیگر افراد اچھی طرح سے جانتے تھے کہ رمیش کمارچند دنوں میں مسلم لیگ نون کو خیر باد کہنے والے ہیں مگر نواز شریف نے اپنے رویے سے، اپنی گفتگو سے اس بات کو ذرا سا بھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ جس سے رمیش کمار کے احترام میں کوئی فرق محسوس ہوتا حالاں کہ اس وقت کے حالات کسی کو بھی شدید اعصابی دباؤ کا شکار کرنے کیلئے کافی تھے مگر مضبوط اعصاب کا مظاہرہ کیا گیا۔ مگر موجودہ حکمران کا رویہ یہ ہے کہ وہ منہ پر ہاتھ پھیر کر کہتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ یہ کروں گا اور میں تمہارے ساتھ وہ کر دوں گا۔ ان سمیت ان کی نچلی قیادت گالم گلوچ تک سے باز نہیں آتی ہے۔ 

معاملہ صرف یہ نہیں ہے کہ موجودہ حکمران مزید کتنے عرصے تک تخت نشین رہیں گے اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں نے طویل تکلیفوں کے بعد یہ سیکھا تھا کہ الفاظ کے غلط چناؤ سے معاملات سنگین ہو جاتے ہیں مگر اب معاملہ اس سے بھی آگے بڑھ گیا ہے کہ صرف الفاظ کا غلط چناؤ ہی نہیں گالم گلوچ کا رویہ اختیار کیا جارہا ہے اور یہ صرف سوشل میڈیا پر نہیں بلکہ ٹیلی وژن پر ہو رہا ہے۔ حکومتوں نے تو جلد یا بدیر رخصت ہونا ہی ہوتا ہے مگر ان کے اثرات نسلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں سیاست میں شائستگی کب واپس آئے گی گالم گلوچ سے کب جان چھوٹے گی اگلا چیلنج یہ درپیش ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے ہماری سیاسی جماعتوں کو تمام تر اختلافات بھلا کر یکجا ہونا ہوگا اس لئے کہ یہ زبان ہماری آنے والی نسلوں کی تہذیب پر برے اثرات مرتب کرے گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔