24 مارچ ، 2022
چین کے سب سے بڑے ساحلی شہر اور عالمی معیشت کے مرکز شنگھائی میں صبح سویرے ایسا واقعہ پیش آیا ہےجو اس بات کی علامت بن گیا ہےکہ یوکرین تنازعہ پر ڈیڑھ ارب چینی عوام کس قدر منقسم ہیں۔
چہل قدمی کےدوران دو افراد یوکرین پرروس کی حمایت اورمخالفت میں بحث میں ایسے الجھےکہ بات ہاتھ پائی تک جا پہنچی اور جو شخص روس کے مؤقف کا حامی تھا اس نےطیش میں آکر یوکرین کی طرفداری کرنیوالے شخص کا کان چباکر الگ کردیا۔
اس میں شک نہیں کہ نظریاتی لحاظ سے چین اپنے پڑوسی روس سے قریب ہے،کئی اہم سمجھوتے بھی کیے ہیں مگر یوکرین جنگ کے معاملےپر بیجنگ کیا اس پوزیشن میں ہے کہ وہ ماسکو کا ساتھ دے اور اگر ایسا کرے تو کس حد تک ؟ یہی نہیں اس بات کے کیا امکانات ہیں کہ چین اپنے روایتی حلیف کے بجائے مغرب کی جانب جھکاؤ کرلے؟
یہ درست ہے کہ امریکی صدرنے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ پر دوٹوک انداز میں واضح کردیا ہےکہ اگر چین نے جنگ میں روس سے تعاون کیا تو پھرخمیازہ بھگتنا پڑےگا۔
دوسرے لفظوں میں صدر بائیڈن نے چین پر امریکا اور یورپی ممالک کی انہی پابندیوں کا اشارہ دیدیا ہے جن سے روس کا ناطقہ بند کیا گیا ہے۔ساتھ ہی چین کو لُبھانے کے لیے بھی کچھ تار بھی چھیڑے ہیں۔
یہ وہی چین ہے جس کے بارے میں عام تاثر تھا کہ صدر بائیڈن کے برسر اقتدار آتے ہی امریکا اپنے دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر روس سے پہلے چین کے گردگھیر اتنگ کرے گا۔
امریکا،آسٹریلیا،جاپان اور بھارت پر مشتمل اتحاد کواڈ میں پھر سے نئی روح پھونکے جانے سے بھی اس بات کو تقویت ملی تھی کہ یہ چار ملک دراصل ایشیا میں نیٹو طرز کا سکیورٹی اتحاد قائم کر رہے ہیں تاکہ چین کے گرد حصار قائم کیا جائے۔پچھلے دوعشروں کے درمیان بھارت سے امریکا کی بڑھتی قربت بھی اسی تناظر میں دیکھی جارہی تھی۔
اگر کچھ کمی تھی تو وہ صدربائیڈن نے چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا متبادل پیش کرنے سے پوری کردی تھی۔ امریکی صدر کی کوشش تھی کہ ایشیا، یورپ اور افریقا میں وہ ممالک جو چین سے اقتصادی بندھن میں جڑگئے ہیں،انہیں آزاد کرا کے دوسرے کیمپ میں لایاجائے اور چین کو اقتصادی شکنجے میں کس کر اسکی اصل طاقت اُسی طرح چھین لی جائے جیسے بائبل کے کردار سیمسن کی طاقت دلیلہ نے بال کاٹ کر ختم کردی تھی۔
توقع یہ بھی تھی کہ چین کے خلاف محاذ آرائی کیلئے جغرافیائی لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کے حامل سکنیانگ میں مسلمانوں کی حالت زار اجاگر ہوگی،وہاں پھر سے آزادی کی تحریک کو ہوا دی جائے گی یا پھر تائیوان اور ہانگ کانگ کا مسئلہ شعلہ بن کر لپکےگا۔
اس سب کے برعکس چنگاری یوکرین سے آزادی لینے کے دعویدار علاقوں ڈونئیسک اور لوگانسک میں بھڑکی اورجیسے روس کی گردن افغانستان میں پھنسائی گئی تھی،اس بار وہ یوکرین میں کام آئی۔ جس چین کےخلاف صف آرائی کی جارہی تھی،اسے روس کی قربت سے خبردار کرنے کے ساتھ ساتھ پینگھیں بڑھانے کی غیر معمولی کوشش کی گئی ہے۔
50 برس پہلے کیے گئے شنگھائی اعلامیے کی یاد دلاتے ہوئے جوبائیڈن نے یقین دہانی کرائی ہے کہ امریکا کسی بھی طور پر چین کے نظام حکومت کے خلاف نہیں اور نہ ہی بیجنگ سے سرد جنگ چاہتا ہے، کواڈ کے بارے میں بھی واضح کیا ہے کہ اسکا ہدف چین نہیں، یہ بھی کہ واشنگٹن کسی بھی صورت تائیوان کی آزادی کی حمایت نہیں کررہا اور نہ ہی چین سے تنازعہ چاہتا ہے۔ قیمت صرف ایک ہے کہ روس کا ساتھ نہ دیا جائے۔
چین کے لیے امریکا کی یہ میٹھی میٹھی باتیں خاطرمیں نہ لانا آسان نہیں۔ آخر پچھلے برس امریکا اور چین کے درمیان 615 ارب ڈالر سے زائد کی تجارت رہی ہے جس میں امریکا کو 285 ارب ڈالر سے زائد تجارتی خسارہ رہا۔
یعنی یہ تجارت چین کے حق میں رہی۔ صرف پچھلے برس چینی کمپنیوں نے امریکا میں 38 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کی ۔امریکا کے اتحادی یورپی ممالک سے تجارت کو دیکھیں تو اس سال چین کی یورپی یونین کو برآمدات بائیس اعشاریہ چار فیصد جبکہ درآمدات دس اعشاریہ دو فیصد ہیں۔تجارت ہی نہیں وسطی اور مشرقی یورپ کے 17 ممالک بھی چین کے اُس بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ ہیں جو ایک سو چالیس ملکوں میں پھیلا ہوا ہے ۔یوکرین بھی بی آر آئی کا حصہ ہے۔ یقینی ہے کہ امریکا کے خلاف چین کے کسی بھی اقدام کابراہ راست اثر اس منصوبے پر بھی پڑنے کا اندیشہ ہے۔
اس تناظرمیں دیکھیں تو چین کا اقتصادی مفاد روس سے کہیں زیادہ امریکا اور یورپ سے وابستہ ہے۔روس پرپابندیاں لگائے جانے کے بعد بیجنگ کو یہ توقع بھی ہے کہ اگلے برسوں میں مغربی ممالک کے لیے اس کی تجارتی اہمیت کئی گنا بڑھے گی اور معیشت کو نئی توانائی ملے گی۔
مغرب سے مفاد اپنی جگہ ، پابندیوں کا شکار روس کیلئے اس نازک صورتحال میں چین کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔روس اب چین کی کرنسی میں تجارت کو فوقیت دے گا اور ماسکو سے تجارت بڑھاکر اپنی معیشت کوسہارا دینے کی کوشش کرےگا، یعنی اسٹریٹجک لحاظ سے دیکھیں تو چین کی اہمیت دونوں فریقوں کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
شاید یہی وجہ تھی کہ جنگ سے بچنے والے چین نے یوکرین اشو پر اقوام متحدہ میں پیش قرارداد میں امریکا یا روس کسی کا ساتھ دینے کے بجائے ووٹ نہ دینے کی راہ اپنائی ،بیجنگ یوکرین بحران سے متاثر ممالک کی امداد پر بھی آمادہ ہوگیا۔ساتھ ہی زور دے رہا ہے کہ امریکا اور نیٹو یوکرین بحران کی جڑختم کریں، روس اور یوکرین کے سکیورٹی تحفظات دور کریں اور نتیجہ خیز ڈائیلاگ کے ذریعے امن قائم کریں جو ہوتا نظر نہیں آرہا۔
یہ جان کر بھی کہ روس کے بعد امریکا کی نظریں چین ہی پر مرکوز ہوں گی،اقتصادی وجوہات کی بنا پر بیجنگ کے لیے یہ آسان نہیں کہ روس کا کھل کر ساتھ دے۔
عالمگیریت کی وجہ سے چین کویہ طے کرنا ہے کہ وہ روس کا اعتماد برقرار رکھ کر امریکا کے کس قدر قریب ہوسکتا ہے کیونکہ روس کی دوستی قربان کی توجو واقعہ شنگھائی میں پیش آیا ،وہ اور شہروں میں بھی تواتر سے نظر آئے گا،چینی عوام کو قابو کرنا آسان نہیں رہے گا۔شاید اسی لیے چین کے صدر نے امریکی ہم منصب پر واضح کردیا ہے کہ یوکرین کے معاملے پر چین سے بہت زیادہ توقعات نہ رکھی جائیں ۔جس نے بلی کے گلے میں گھنٹی ڈالی ہے ،اُسی کو اتار نا ہوگی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔