25 مارچ ، 2022
کوئی نہیں جانتا طاقت کی سیاست میں حتمی فاتح اور ہارنے والا کون ہوگا اور اصل ٹرمپ کارڈ کس کے پاس ہے، وزیراعظم عمران خان، سابق صدرآصف زرداری یا’’تھرڈ امپائر‘‘۔ بدھ کو او آئی سی کانفرنس کے اختتام کے بعد حکومت اور اپوزیشن کےدرمیان سیاسی میچ تین دن کے وقفے کے بعد آج دوبارہ شروع ہوگا۔
قومی اسمبلی کا اہم اور فیصلہ کن اجلاس آج سے شروع ہوگا، تاہم تمام تر امکان ہیں کہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر ایم این اے کے انتقال کی وجہ سے اجلاس ملتوی کر دیں گے لیکن یہ دیکھنا اہم ہوگا وہ کتنے دن تک اجلاس ملتوی کرسکتے ہیں۔
عام اور روایتی طور پر ایسے معاملات میں اجلاس کو اگلے ورکنگ ڈے تک ملتوی کردیا جاتا ہے، اس لیے وہ اجلاس پیر 28 مارچ تک ملتوی کرسکتے ہیں لیکن اگر ان کے ذہن میں کچھ اور ہے تو وزیراعظم یا پی ٹی آئی کی کور ٹیم کی ہدایت کے مطابق وہ اجلاس غیرمعینہ مدت تک ملتوی کرسکتے ہیں۔
آج کے قومی اسمبلی اجلاس کے طوفانی اور ہنگامہ خیز ہونے کا چانس مسترد نہیں کیا جاسکتا، اہم سوال یہ ہے کہ اسپیکر عدم اعتماد کی تحریک کب پیش کریں گے۔اب بہت کچھ آرٹیکل 63(A) کی تشریح کے حوالے سے سپریم کورٹ کے حکم کے نتائج پر منحصر ہے جو منتخب ایم این اے یا ایم پی اے کی نااہلی سے متعلق ہے۔
اسپیکر نہ صرف وزیراعظم سے رابطے میں ہیں بلکہ وہ تحریک عدم اعتماد کو شکست دینے کیلئے پی ٹی آئی اقدامات کا حصہ بھی ہیں، وہ اتحادیوں کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے منحرفین کو واپس لانے کیلئے کافی سرگرم ہیں،یہ تمام اقدامات ایک دوسرے سے بہت زیادہ منسلک ہیں۔
اب وزیراعظم عمران خان اتوار 27 مارچ کو اسلام آباد جلسہ میں اپنا ٹرمپ کارڈ دکھانے جارہے ہیں اور انہوں نے اعلان کیا کہ انہیں عوام کے ساتھ ارکان قومی اسمبلی کا بھی اعتماد حاصل ہے، اسپیکر مختصر نوٹس پر پیر کو اجلاس بلا سکتے ہیں۔
آج تک کسی کو’’پراسرار کارڈ‘‘ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں، یہ اپوزیشن کی بڑی ناکامی ہے یا ایک بڑی تقرری کے سلسلے میں ان کا اہم فیصلہ؟ وزیراعظم کا سسپنس برقرار رکھتے ہوئے دوٹوک مؤقف ہےکہ تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوگی اور اگر ان کی حکومت ختم بھی کردی گئی تو استعفیٰ نہیں دیں گے۔
وزیراعظم جو اس بحران کے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے تک باقاعدگی سے کابینہ اجلاس کی صدارت کرتے رہے ہیں ایک ماہ سے اجلاس نہیں کرسکے انہوں نے خبردار کیا ہے کہ انہوں نے اپنا ٹرمپ کارڈ ابھی تک سنبھال رکھا ہے جبکہ اپوزیشن نے جلدبازی میں تمام پتے شوکر دیے ہیں۔
کیا واقعی ان کی جیب میں کچھ ہے یا صرف نفسیاتی چالوں کے ذریعے مخالفین کا مقابلہ کر رہے ہیں جلد معلوم ہوجائے گا، وزیراعظم اپنی قانونی ٹیم کے ساتھ بھی مسلسل رابطے میں ہیں، تاکہ تحریک عدم اعتماد سے پہلے اور بعد کی حکمت عملی تیار کی جاسکے۔
بظاہر ان کے آر یا پار کی صورتحال ان کے تین حکومتی اتحادیوں مسلم لیگ (ق)، ایم کیوایم پاکستان اور بی اے پی کے فیصلے پر منحصر ہے، دوسرا وزیراعظم نئے وزیراعلیٰ پنجاب کا اعلان کرسکتے ہیں اور فائدہ جہانگیر ترین یا علیم خان کو جاسکتاہے۔
یہ بھی ہوسکتا ہے وہ پرویزالہٰی کو وزیراعلیٰ بنانے پر رضامند ہوجائیں یا پہلے ہی ہوچکے ہوں بشرطیہ کہ وہ بی اے پی اور ایم کیو ایم کے ساتھ حکومتی اتحادی کی حیثیت سے پوزیشن برقرار رکھیں، بہت کم امکان ہے کہ وزیراعظم اہم تقرری کے سلسلے میں تمام فیصلے کرلیں جبکہ خود پی ٹی آئی میں بہت سے لوگ اسے خود پر خودکش حملہ سمجھتے ہیں۔
اب سابق صدر اور اپوزیشن کے سب سے اہم رہنما آصف زرداری کے پاس کون سا کارڈ ہے؟ عمران خان کی طرح انہیں بھی پورا اعتماد ہے کہ وہ وزیراعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹادیں گے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔