28 مارچ ، 2022
انسان قدرت کی ایسی شاہکار تخلیق ہے جس کا ہرفرد الگ مزاج،مختلف عادات و اطواراور منفرد سوچ کا حامل ہے۔ ارسطو کے بقول انسان ’حیوان ناطق‘ہے،ڈیکارٹ انسان کو مشین قرار دیتا ہے،روسو کے مطابق انسان ایک ایسا ’وحشی‘ ہے جسے سُدھایا جا سکتا ہے،تھامس ہابز کے خیال میں انسان جبلت کے اعتبار سے ’بھیڑیا‘ ہے،ڈارون انسان کو بندر کی ارتقائی شکل سمجھتا ہے جبکہ نطشے اسے ’سپرمین‘کا درجہ دیتا ہے۔
حقیقت جو بھی ہو بہر حال انسان کا خود سے پیار کرنا فطری جذبہ ہے مگر جب معاملہ فریفتگی سے ہوتا ہوا محویت اور خودپرستی کی شکل اختیار کرلے اور انسان اپنی ہر ادا پر سو جاں سے فدا ہونے لگے تو اِس نفسیاتی عارضے کو ’’نرگسیت‘‘ کہا جاتا ہے۔
’نرگسیت‘ سے متعلق قدیم یونا نی کہانی کے کئی ورژن ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ زیوس دیوتا آسمان پر راج کرتا تھا، وہ حسن پرست تھا۔ ایک روز اُس کا سامنا ایک خوبصورت پری سے ہوا۔ وہ پری باتیں کرتی رہتی اور زیوس کو وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوتا۔ اُس کی بیوی ہیرا کو زیوس کی یہ عادت پسند نہ آئی۔اُس نے خوبصورت پری کو بددعا دی تو وہ محض بازگشت بن کر رہ گئی۔ اِسی مناسبت سے اِس دلکش پری کو ’’ایکو‘‘ کا نام دیا گیا۔ وہ جنگل میں بھٹکتی پھرتی تھی۔ ایک دن اُسے شکار کیلئے آیا خوبصورت شہزادہ ’’نارسیس‘‘ نظر آیا تو وہ اُس کے عشق میں مبتلا ہو گئی اور بے اختیار اُس کے پیچھے چلنے لگی۔
شہزادے کو تعاقب کئے جانے کا احساس ہوا تو اُس نے چلا کر کہا، کون ہو تم؟ ’’ایکو‘‘ نے بھیس بدل کر اُسے گلے لگا لیا اور اپنے جذبات و احساسات سے آگاہ کیا۔ شہزادہ ’’نارسیس‘‘ نے اُسے ایک طرف دھکیل دیا اور اُس کی محبت کودھتکارتے ہوئے کہا دور ہو جاؤ مجھ سے۔یہ سن کر پری کا دل ٹوٹ گیا۔اُس نے بددعا دیتے ہوئے کہا، خدا کرے تم اپنی ذات کے اسیر ہو جاؤ، تمہیں اپنے آپ سے پیار ہو جائے اور اِس محبت کو پانے کا کوئی راستہ نہ مل پائے۔ انتقام کا دیوتا خوبصورت پری ’’ایکو‘‘ کی آہ سن کر جلال میں آگیا اور شہزادہ ’’نارسیس‘‘ کو سزا دینے کا فیصلہ کیا۔
ایک روز جب وہ شکار کے دوران پیاسا تھا اور پانی کی تلاش میں پھر رہا تھا تو اُسے دریا میں اپنا عکس دکھائی دیا۔ انتقام کے دیوتا نے اسے ایسا اُکسایا اور لُبھایا کہ ’’نارسیس‘‘ خود ہی محب اور خود ہی محبوب ہو گیا۔ وہ خود پرستی کا شکار ہو گیا، اُسے اپنے ہی عکس سے پیار ہو گیا۔’’نارسیس‘‘ پانی میں دکھائی دے رہے اپنی ہی عکس کے خیالوں میں کھویا رہتا۔ وہ کھانا، پینا بھول گیا اور وہیں دریا کنارے بیٹھے بیٹھے اُس کی موت واقع ہو گئی۔ ’’ایکو‘‘ کو خبر ہوئی تو وہ اُس کی طرف لپکی مگر وہاں ’’نارسیس‘‘ نہ تھا بلکہ نرگس کا ایک پھول کھلا ہوا تھا۔یہ تو ایک حکایت تھی مگر دنیا بھر کے ماہرینِ نفسیات اِس بات پر متفق ہیں کہ ’’نرگسیت‘‘ کی 9علامات ہیں۔
پہلی علامت ہے اپنی افضلیت کے بے پایاں احساس میں مبتلا ہونا۔مثلاً میں اسمارٹ ہوں ،میرے جیسا کوئی نہیں،میرے پاس سب کچھ ہے ،مجھے کسی چیز کی کمی نہیں ،میں کسی کا محتاج نہیں ،سب میرے دست نگر ہیں۔
دوسروں سے افضل ہونے کا مغالطہ جسے احساس برتری کہا جاتا ہے اس کے بارے میں ماہرین نفسیات واضح کر چکے ہیں کہ احساس برتری بھی دراصل احساس کمتری کی ایک شکل ہے ۔اس غلط فہمی کی کوکھ سے ایک اور مغالطہ جنم لیتا ہے جو ماہرین کے خیال میں ’’نرگسیت ‘‘کی دوسری بڑی علامت ہے اور وہ ہے ہر چیز پر اپنا حق جتلانا۔ایسے لوگ اگر کسی ٹیم کا حصہ ہوں تو خود کو کارکردگی اور محنت کے ذریعے قیادت کا حقدار ثابت کرنے کے بجائے اس واہمے میں مبتلا رہتے ہیں کہ یہ تو ان کا پیدائشی حق ہے۔یہ خود کو ہر منصب کا حقدار گردانتے ہیں ،ہر عہدے کا اہل سمجھتے ہیں اور اس کے حصول کیلئے جائزیا ناجائز کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتے کیونکہ ان کی دانست میں جس چیز پربھی ان کا حق ہے، اسے صیح یا غلط طریقے سے حاصل کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔
’’نرگسیت ‘‘کی تیسری علامت یہ ہے کہ جب یہ خودپسند لوگ کوئی عہدہ ،منصب یا اختیار حاصل کرلیتے ہیں تو کامیابی اور طاقت سے متعلق غیر حقیقت پسندانہ رویے کا شکار ہوجاتے ہیں۔مثال کے طور پر ایک شخص قاصد رکھے جانے کے قابل نہیں ۔کسی کے دستِ شفقت کے باعث اسے چیف ایگزیکٹو لگا دیا گیاہے تو وہ اپنے اختیارات اور طاقت سے متعلق گھمنڈ میں مبتلا ہو جائے گا۔وہ یہ سمجھنے لگے گا کہ واقعی سب اس کے ماتحت ہیں اور وہ بہت بااختیار ہے۔
’’نرگسیت‘‘کی چوتھی نشانی یہ ہے کہ ایسے لوگ چاہے اور سراہے جانے کی بے پناہ احتیاج میں مبتلا ہوتے ہیں۔انہیں تعریف و توصیف ،خوشامداورچاپلوسی نہ صرف پسند آتی ہے بلکہ انہیں اس کی لَت لگ جاتی ہے۔وہ چاہتے ہیں کہ ہر پل ،ہر قدم پر ان کی مدح سرائی کی جائے۔لوگ ان کے بیٹھنے کے انداز کی تعریف کریں،ان کی شخصیت کو جاذبِ نظر قرار دیں ،ان کے اندازِ گفتگو پر دادکے ڈونگرے برسائیں۔
پانچویں علامت یہ ہے کہ وہ تعلق اور رشتہ نباہنے کے قائل نہیں ہوتے۔انتہا درجے کے خود غرض ہوتے ہیں ۔ان کے نزدیک کسی رشتے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔چھٹی نشانی یہ ہے کہ ایسے لوگ سفاکیت کی حد تک بے رحم اور ہمدردی کے جذبات سے عاری ہوتے ہیں۔ساتویں علامت یہ ہے کہ یہ مغرور اور گھمنڈی ہوتے ہیں۔کمزور کو خاطر میں نہیں لاتے اور طاقتور کے آگے جھکنے میں عار نہیں سمجھتے۔آٹھویں نشانی یہ ہے کہ ایسے لوگ خود کو باقی سب سے انوکھا اور منفرد خیال کرتے ہیں۔ ’’نرگسیت‘‘کی نویں علامت یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنی ذات کے علاوہ کچھ نہیں سوچتے۔وہ سمجھتے ہیں کہ اگر میں نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں،سب کچھ تباہ و برباد ہوجانا چاہئے۔
گاہے خیال آتا ہے ’’نرگسیت‘‘نسوانی نام ہے جس سے صنفی امتیاز کی بوآتی ہے ۔ اس اصطلاح کا نام تبدیل کرکے اگرمردانہ نام رکھنا مقصود ہوتو کیوں نہ اسے ’’عمرانیت‘‘کہہ دیا جائے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔