بلاگ
Time 29 مارچ ، 2022

اقتدار: عمران خان کی بند مٹھی میں ریت

اتوار کو وزیر اعظم عمران خان کے تاریخی جلسہ عام سے خطاب کے بعد عوام کے علاوہ اپوزیشن اور میڈیا کی توجہ تحریک عدم اعتماد سے ہٹ کر وزیر اعظم کی جانب سے لہرائے جانے والے اس پراسرار اور مبہم خط پر مبذول ہو گئی جسے عدالتی مقتول سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ہینری کیسنجر کی جانب سے لکھے جانے والے خط سے مماثلت دیتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے پر پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا ۔

عمران خان نے یقین ظاہر کیا کہ ان کے خلاف بھی اسی قسم کی سازش ہو رہی ہے اور ان کے خلاف بھی ایسے ہی حالات پیدا کئے جا رہے ہیں جو 1977 میں بھٹو کے خلاف کئے گئے تھے۔وزیراعظم نے ایسے حالات کا مقابلہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ بھٹو کا دور نہیں بلکہ یہ سوشل میڈیا کا وقت ہے جس میں اس قسم کی سازش کامیاب نہیں ہو سکتی۔

عمران خان نے دعویٰ کیا کہ ان کے علم میں ہے کہ بھٹو کے قاتلوں اور مقتولوں کے درمیان سمجھوتا کس نے کروایا۔ اور کون اس سازش کے پیچھے ہےلیکن خط کا متن اور بھیجنے والے کی شناخت ظاہر کرنے سے انکار کر کے خط کی حقیقت کو مشکوک کر دیا۔وزیراعظم عمران خان نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف سازش کے بارے میں تو واشگاف الفاظ میں اس سازش کے پیچھے کارفرما قوتوں کو تو واضع کر دیا جس کے ذمہ دار کا نام تاریخ میں وقت کے ڈکٹیٹر ضیاء الحق لکھا ہے  لیکن عمران خان نے اپنے خلاف ہونے والی سازش کے پیچھے قوتوں کی شناخت صیغہ راز میں رکھی۔سوال یہ ہے کہ کیا عمران سمجھتے ہیں کہ اس کے پیچھے بھی اسٹیبلشمنٹ ہے؟ کیا انہوں نے اپنی اسٹریٹ پاور کا مظاہرہ اسٹیبلشمنٹ کو کوئی پیغام دینے کے لئے کیا ہے؟؟

اس انکشاف کے بعد میڈیا کے علاوہ اپوزیشن کی جانب سے سوالات کی بوچھاڑ شروع ہو گئی ۔مختلف ٹی وی چینلز پر وزراء اور حکومتی رہنماؤں سے اس خط کے بارے بنیادی اہمیت کے سوالات کئے لیکن سارا سارا دن اپوزیشن کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے ترجمانوں یا وزیراعظم کو دنیا کا عظیم لیڈر ثابت کرنے کے لیے زمین آسمان کے قلابے ملانے والے وفاقی وزراء کے پاس کوئی مدلل یا مطمئن کرنے والا جواب نہیں۔

اس خط کو خود ساختہ کہانی یا سیاسی چال قرار دیتے ہوئے اپوزیشن کے بعض رہنماؤں نے واضع کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ہینری کیسنجر کی جانب سے موصول ہونے والے خط کو عوام یا پارلیمنٹ سے چھپایا نہیں تھا بلکہ اسے پارلیمنٹ میں پیش کر کے عوام کے منتخب نمائندوں کو اعتماد میں لیا تھا اور اگلے روز یہ خط اخبارات میں شائع ہوا تھا۔

آمدم برسر مطلب۔پی ٹی آئی کا جلسہ واقعی ایک بڑا جلسہ تھا لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ عمران خان 10 لاکھ کا مجمع اکٹھا کرنے کا دعویٰ نہ کرتے لیکن ناقدین شواہد کی بنیاد پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ حکومت نے اس سیاسی جلسہ کو کامیاب کرنے کے لئے سرکاری وسائل کا استعمال بے خوف و خطر کیا۔

ملک کے مختلف حصوں سے گولڑہ ریلوے سٹیشن تک اسپیشل ٹرینیں چلائی گئیں۔گولڑہ ریلوے سٹیشن کے باہر موجود پی ٹی آئی کے کارکنوں کو جلسہ گاہ تک پہچانے کے لئے کوسٹر اور ہائی ایس گاڑیاں تیار کھڑی رہیں۔۔۔جن کے اخراجات پنجاب، خیبرپختونخوا اور وفاقی دارالحکومت کے پٹواریوں کے ذمہ تھے۔۔۔لیکن کیا سچ، ایمانداری، انصاف اور راہ مستقیم کا درس دینے والی سیاسی جماعت کو یہ باتیں زیب دیتی ہیں؟...کیا ایسے حالات کے تناظر میں ریاست مدینہ کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے ۔۔۔ یا یہ بھی سیاست کی دھول میں کھو جائے گا۔۔

سرکاری یا سیاسی جلسوں کی تاریخ میں یہ ایک انوکھا واقعہ ہے کہ حکومت کی جانب سے پرائیویٹ ٹی وی چینلز پر جلسے کی کوریج کرنے پابندی عائد کردی گئی اور اس کی کوریج کی ذمہ داری صرف سرکاری چینل پی ٹی وی کو سونپی گئی ہے۔ایسا کیوں کیا۔۔۔؟ کیا ناقدین کا یہ مؤقف درست ہے کہ حکومت نے اپنے جلسے کی کوریج کے انتظامات باوجود اپنے ہاتھ میں رکھے تاکہ اسےتکنیکی طور پر بہتر انداز میں نشر کیا جا سکے اور جدید پروڈکشن اور ساؤنڈ مکسنگ سسٹم کے مؤثر استعمال سے مطلوبہ نتائج حاصل کئے جا سکیں۔

میرٹ کی بنیاد پر قائم اس پارٹی نے ضلعی انتطامیہ کو اپنی دہلیز کی باندی بنا رکھا ہے۔وفاقی ضلعی انتظامیہ نے حکومت کے حکم پر پی ٹی آئی کے جلسہ کو سرکاری سہولیات مہیا کیں لیکن حکومت کے ہی حکم پر جے یو آئی کو اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے نوٹس جاری کر دیا۔

اس سلسلہ میں اسلام آباد کے ایک ہونہار صحافی، قاسم عباس نے تحریری شواہد کی بنیاد پر بتایا حکومت اور حکومتی پارٹی کے چیف ایڈمنسٹریٹر نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کو غیر قانونی طور پر تحریری حکم دیا تھا کہ وہ جلسے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے اور فول پروف سکیورٹی کو یقینی بنائے۔

تحریک عدم اعتماد کے نتائج کچھ بھی ہوں سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوتا رہے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔