30 مارچ ، 2022
ہم جیسے لوگوں نے بھی عمران خان کی پوری تقریر سننے کی اذیت برداشت کی لیکن اس پہاڑ سے بھی آخر میں کاغذ کے ایک ٹکڑے کی صورت میں ایک چوہا ہی نکلا۔ وہ کبھی کاغذ کو جیب سے نکالتے اور کبھی واپس رکھتے۔ دعویٰ کرتے رہے کہ اس کاغذ میں ان کی حکومت کے خلاف سازش کا ثبوت ہے لیکن اس کے مندرجات نہیں بتائے۔
وہ کاغذ لہرا لہرا کر یہ تاثر دے رہے تھے کہ پاکستان کے خلاف عالمی سازش ہورہی ہے لیکن یہ نہیں بتاسکے کہ کس طرح کی سازش تھی اور کس نے تیار کی تھی۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بھٹو دِکھنے کی بھی کوشش کی لیکن بھٹو کی طرح یہ بتانے کی ہمت نہ کرسکے کہ سازش کرنے والا کون ہے اور اس کی ناراضی کی وجہ کیا ہے ؟ چنانچہ اب اس کاغذ کے بارے میں مختلف چہ میگوئیاں ہورہی ہیں۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ یورپین یونین کے سفیروں کا خط ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کسی مغربی ملک میں پاکستانی سفیر کا اس ملک کے پاکستان کے بارے میں جذبات کی سمری پر مشتمل دستاویز ہے۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ امریکہ اور پاکستان کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزرز کے مابین میٹنگ کے منٹس ہیں، کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ ان کے دورہ روس سے قبل پاکستانی اور امریکی دفتر خارجہ کے درمیان ہونے والی بات چیت کے منٹس ہیں لیکن جہاں تک میری تحقیق کا تعلق ہے یہ ایسی کوئی دستاویز نہیں جس میں کسی مغربی ملک کی طرف سے عمران خان کو دھمکی ہو یا پھر عمران خان کی حکومت کو گرانے کی سازش ہو۔ میرے اس دعوے کی کچھ بنیادیں ہیں جو حسب ذیل ہیں۔
1: کسی ملک نے کسی حکومت کے خلاف سازش کرنی ہو یا کسی حکمران کو دھمکی دینی ہو تو وہ کبھی دستاویزی شکل میں نہیں دیتا۔
2:امریکہ اور مغربی ممالک پاکستان کے سیاسی اسٹرکچر کو بخوبی جانتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ عمران خان نے زبان چلانے کے سوا ان کے مفادات کے خلاف کوئی کام نہیں کیا۔اس لیے اس کا کوئی جواز نہیں کہ وہ ان کی حکومت گرانے پر اپنا وقت ضائع کریں۔
3: پاکستان اور امریکہ کے تعلقات مدوجزر کا شکار رہے ہیں۔ قطر معاہدے میں پاکستان کے کردار سے امریکی بہت مطمئن تھے لیکن پھر جب منصوبے کے خلاف طالبان قبل ازوقت کابل پر قابض ہوگئے اور جہازوں سے افغانوں کے گرنے کے مناظر امریکیوں اور یورپینز نے دیکھے تو وہ ماضی میں طالبان سے متعلق پاکستانی ریاست کی پالیسی کی وجہ سے اس پر بہت غصہ تھے لیکن وہ عمران خان کی حکومت پر نہیں بلکہ پاکستانی ریاست پر غصہ تھے کیونکہ امریکی اور یورپی ممالک جانتے ہیں کہ افغان پالیسی کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد میں عمران خان کا اتنا ہی کردار ہے جتنا پرویز خٹک کا دفاعی معاملات میں۔ انہوں نے دھمکی دینی ہوتی تو آرمی چیف یا پھر ڈی جی آئی ایس آئی کو دیتے۔ انہوں نے اگر کوئی سازش کرنی ہے تو پاکستانی فوج کے خلاف کریں گے۔
4: ٹرمپ کے ساتھ ملاقات اور اس پر پاکستان میں جشن منانا کسی اعلیٰ امریکی عہدیدار کے ساتھ عمران خان کا آخری رابطہ تھا۔ جب سے جو بائیڈن آئے ہیں وہ خود تو کیا تو کسی اعلیٰ امریکی عہدیدار نے بھی عمران خان سے کوئی بات نہیں کی۔ اس دوران امریکیوں نے جب بھی رابطہ کیا تو آرمی چیف یا ڈی جی آئی ایس آئی سے کیا۔ سویلین سطح پر جو ایک اعلیٰ سطحی رابطہ ہوا ہے وہ نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر معید یوسف سے ہوا اور اس رابطے کے بعد وہ میرے ساتھ انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ دھمکی یا ناراضی کی بات ہوئی اور نہ اڈوں پر کوئی بات ہوئی۔
5:جہاں تک یورپین سفیروں کے خط کا تعلق ہے تو یہ ایک سفارتی معمول ہے۔ ہر ملک کے سفیر متعلقہ ممالک کو اپنے ملک کے مطالبات پر مبنی خطوط لکھتے رہتے ہیں اور وہ ملک اپنی پالیسی کے مطابق یا تو جواب دیتے ہیں یا پھر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ مثلاً امریکہ میں ہمارا سفیر مختلف مواقع پر خطوط لکھ کر امریکیوں سے کشمیر پر حمایت کا مطالبہ کرتا رہتا ہے لیکن امریکی اس کا برا مناتے ہیں اور نہ ان کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہیں۔ یوں سفارتکاری میں اس طرح کے میمورنڈم بھیجنا ایک معمول ہے۔
6: جو ممالک دھمکی دیتے ہیں تو وہ قطعاً تحریری شکل میں نہیں دیتے بلکہ وہ اپنے عہدیداروں کی متعلقہ ملک کے مختاروں کے ساتھ براہ راست ملاقاتوں میں پیغام دیتے ہیں یا پھر اس ملک میں اپنے سفارتخانے کے ذریعے اپنی ناراضی یا دھمکی پہنچاتے ہیں یا عملی اقدامات سے دھمکی دیتے ہیں۔ مثلاً اس وقت ہم جانتے ہیں کہ امریکہ کا اصل ہدف چین ہے تو کیا چین کو امریکہ نے کوئی خط لکھ کر دھمکی دی ہے؟ نہیں بلکہ چین کے ساتھ مکالمہ جاری رکھ کر امریکہ نے جی سیون اور نیٹو کے اجلاس میں بی آر آئی کے جواب میںاپنا پروجیکٹ شروع کرنے کے ذریعے دھمکی دی۔
7:پاکستان کی سلامتی کے خلاف کسی ملکی یا غیرملکی قوت کی کسی سازش کو ڈسکس کرنے کا اولین اور بنیادی فورم نیشنل سیکورٹی کمیٹی ہے اور میری معلومات کے مطابق اس کمیٹی میں آج تک عمران خان کو ہٹانے کے لیے کسی عالمی سازش کا کوئی موضوع زیر بحث نہیں آیا۔ عمران خان کے پاس کوئی جینوئن ثبوت ہے تو جلسے میں قوم کے سامنے لہرانے کی بجائے وہ اسے نیشنل سیکورٹی کمیٹی میں کیوں نہیں لائے ؟ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے دیگر ذمہ دار اراکین تو اس معاملے پر خاموش ہیں لیکن عمران خان کی خوشامد میں تمام حدود عبور کرنے والے وزیر داخلہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے نوٹس میں ایسا کوئی خط یا دستاویز نہیں ہے۔
عمران خان اگر ایک ذمہ دار وزیراعظم ہوتے تو بھٹو بننے کے شوق میں اس طرح کی دستاویز کو جلسے میں نہ لہراتے اور اب جب لہرا دی ہے تو پھر ہمت کرکے بتادیں کہ یہ کس ملک کی سازش ہے اور کس طرح کی سازش ہے۔ اگر وہ ثبوت دکھادیں کہ ان کی حکومت یا پاکستان کے خلاف مغربی طاقت عدم اعتماد کی سازش کررہی ہے تو سب سے پہلے میں ان کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور اپوزیشن سے بھی کھل کر یہ مطالبہ کروں گا کہ وہ عدم اعتماد سے دستبردار ہوجائے۔
8:عمران خان کی بات کو میں اس لیے بھی ڈرامہ سمجھتا ہوں کہ وہ مسلسل ایبسلوٹلی ناٹ کا absolute جھوٹ بول رہے ہیں۔ اب اگر ان کی اس طرح کی غلط بیانیوں کا ریکارڈ نہ ہوتا تو پھر بھی ہم ان کو شک کی گنجائش دے کر ان کی بات پر یقین کرسکتے تھے۔
9: سب سے بڑی بات یہ ہے کہ عمران خان نے امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے مفادات کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ چین کے ساتھ معاملات خراب کرکے اور سی پیک کابرا حشر کرکے وہ بالواسطہ امریکیوں کی بڑی خدمت کررہے ہیں۔ معیشت کو آئی ایم ایف کے ذریعے گروی رکھنے اور امریکہ کی ڈکٹیٹڈ قانون سازی کرنے سے انہوں نے امریکہ کی بڑی خدمت کی۔ پاکستانی اداروں کو متنازعہ بنایا جو امریکہ کی خواہش ہے۔ ان حالات میں کوئی کیسے یقین کرے کہ امریکہ ایسی حکومت کے خلاف سازش کرے گا جو بالواسطہ اس کا کام آسان کررہی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔