30 مارچ ، 2022
وزیراعظم عمران خان کا ٹرمپ کارڈ بھی ’’بھٹو‘‘ ہی نکلا۔ ان کی تقریر نے 1977ءکے راجہ بازار کی یاد تازہ کر دی جب بھٹو نے اسی طرح کا ایک خط لہرایا تھا۔ مگر شاید پاکستان تحریک انصاف کے کارکن کسی اورسرپرائز کے منتظر تھے اور تقریر نے خود ان کو سرپرائز دے ڈالا۔
کچھ کا خیال تھا کہ اتحادی اسٹیج پر ہونگے اور کچھ منحرفین کی واپسی کے اعلان سننے جمع ہوئے تھے۔ انہوں نے تقریباً یہ تک کہہ ڈالا کہ بین الاقوامی طاقتیں انہیں ہٹا رہی ہیں اور عین ممکن ہے، یہی ان کا اگلا بیانیہ ہو آئندہ الیکشن میں۔ کیونکہ کھیل اب آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے صرف نوک پلک درست کی جا رہی ہے۔ کیا اس پورے عمل سے جمہوریت آگے بڑھے گی یا ہم پھر ’’زیرو پوائنٹ ‘‘ پر آگئے ہیں؟ یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے۔
آخر عمران نے بھٹو کا ذکر کیوں کیا۔ شاید اس کے بغیر سیاست نامکمل ہے، اگر بات بین الاقوامی سازش کی جائے۔ مثال آپ اُسی کی دیتے ہیں جو مثال بنا۔ آج سے کئی سال پہلے میں نے اس امریکی سفارت کار کا انٹرویو کیا تھا ایک نجی چینل پر جو اس تاریخی ملاقات کے وقت وہاں موجود تھا جو سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان ہوئی تھی، جس میں اس نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بندنہ کرنے کی صورت میں ذوالفقار علی بھٹو کو ’نشانِ عبرت‘ بنانے کی دھمکی دی تھی۔ ملاقات کے کچھ دنوں بعد بھٹو نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کو بلا کر کہا پروگرام جتنی جلدی ہو مکمل کرو۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ ملک میں مارشل لا لگنے کے بعد بھی اس کی مقبولیت میں کمی نہی آئی، اس وجہ سے 90روز میں الیکشن نہیں ہوئے اور اسے ایک عدالتی قتل کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔آخری وقتوں میں اسے بھی NROکی آفر ہوئی تھی مگر اُس نے یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ ’’میں تاریخ کے ہاتھوں مرنا نہیں چاہتا‘‘۔ آج 43سال بعد بھی سیاسی تقریر اس کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔
خان صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس اس سازش کے ثبوت ہیں مگر انہوں نے عوام کو دکھائے نہیں بقول ان کے ملکی مفاد کے پیش نظر، ویسے بھی ہماری قوم مفروضوں اور تاثر پر ہی اپنی رائے قائم کرتی ہے۔ آنے والے دنوں میں اگر کہیں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جاتی ہے جس کا بظاہر امکان نظر آتا ہے تو خان کا آخری خطاب کیا اور کہاں ہو گا اور اگر ناکام ہو جاتی ہے تو کیا کبھی اس سازش سے پردہ اٹھے گا؟عمران نے جلسے میں واضح اشارہ امریکہ کی طرف ہی کیا ہے اور عوام کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ بھٹوکی طرح انہیں بھی آزادانہ خارجہ پالیسی کی سزا دی جا رہی ہے۔ بھٹو کی حمایت میں تو آدھی اسلامی دنیا کھڑی ہوگئی تھی۔شاہ فیصل سے لے کر کرنل قدافی اور یاسر عرفات سے لے کر حافظ اسد تک، اب دیکھتے ہیں خان صاحب کو دی جانے والی دھمکی کتنی سنجیدہ ہے اور کیا وہ اس سازش کو اپنے دوست ممالک سے شیئر کریں گے؟
بھٹو کو سزا امریکی معاہدوں سیٹو اور سینٹوسے نکلنے، غیر جانبدار تحریک کا حصہ بننے، تیسری دنیا اور اسلامک بلاک بنانے اور امریکی مخالفت کے باوجود اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کرنے اور سب سے بڑھ کر ایٹمی پروگرام شروع کرنے پر ملی۔ اس وقت کی اسلامی اور عرب دنیا اور آج کے سربراہوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس وقت یہ بلاک روس کے ہونے کی وجہ سے بہت مضبوط تھا اب صورتحال مختلف ہے اب تو اسرائیل سے دوستی بڑھ رہی ہے۔
بھٹو سے عمران تک ،ان پچاس برسوں میں جمہوریت پر بار بار حملے ہوئے۔ دو طویل دورانیے کے مارشل لا لگے دو مقبول لیڈر عدالتی قتل اور دہشت گردوں کا شکار بنے اور جمہوریت کی بساط کبھی آمروں کی جانب سے آئین میں ترمیم کی بھینٹ چڑھتی رہی تو کہیں سیاست کو اتنا کرپٹ کر دیا گیا کہ لوگ جمہوریت سے ہی دور ہوتے چلےگئے۔
بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں نے بھی سبق نہ سیکھا، بلکہ مخالفوں کی حکومتیں گرانے میں ان جماعتوں نے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ مجھے لگتا نہیں کہ عدم اعتماد کی اس تحریک کی منظوری یا ناکامی سے سیاسی استحکام آئے گا۔ ماضی میں قبل از وقت حکومتوں کے خاتمے سے عدم استحکام بڑھا ہے کم نہیں ہوا۔ ابھی تو جمہوریت کے تسلسل کے 15 سال مکمل ہونے میں ایک سال باقی تھا مگر جب سیاست ایوانوں سے میدانوں اور پھر بازاروں میں آجائے تو پھر سیاسی زبان بھی بازاری ہو جاتی ہے۔ لوگوں کو امربالمعروف کا درس دیتے وقت اگر تربیت بھی دی گئی ہوتی تو سیاست میں مثبت رجحان سامنے آتا۔ دوسری طرف بلاول بھٹو ابھی جوان ہیں خون بھی گرم ہو گا مگر جو زبان وہ اب استعمال کر رہے ہیں وہ نہ ان کو فائدہ دے گی نہ ہی ان کے کارکنوں کو۔
پاکستان کی سیاست اور سیاسی جماعتیں مرہون منت رہتی ہیں، جماعتیں بنانے، توڑنے اور اس سب کے لئے احتساب کے استعمال نے صرف اور صرف کرپشن کو فروغ دیا ہے۔ ہماری سیاست میں کچھ غیر ملکی دوستوں کا کردار ہے۔ 2000ءکا NRO اور رہائی ہو یا 2007ءکا NRO ہو کوئی بھی خود اپنے بنائے ہوئے اصول پر کھڑا نہ رہ سکا۔
اب جب کہ آخری چند گیندوں کا کھیل باقی ہے ٹیم میں ہی بغاوت ہو جائے تو مشکل تو کپتان کو ہی ہو گی کہ آخر ایسی ٹیم بنائی کیوں۔ عمران سیاست میں کھیلوں کی دنیا سے آئے البتہ بھٹو کا سفر بحیثیت وکیل اسکندر مرزا کے زمانے میں ایوان صدر کی لائبریری سے شروع ہوا 35 سال کی عمر میں اور پھر جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار پر صرف 21سال رہا جس میں عروج بھی دیکھا اور زوال بھی مگر دار نے اسے مر کر بھی امر کر دیا۔ آخر کوئی تو وجہ ہو گی کہ آج کا وزیر اعظم بھی اس کا مداح نکلا۔سیاسی شعور رکھنے والوں کے لئے آج بھی یہ سوال حل طلب ہے آخر کب یہ جماعتیں اور قائدین ’’ احترام جمہوریت‘‘ پر آئیں گی۔ شاید آج میثاق جمہوریت کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔