03 اپریل ، 2022
اقتدار کی سیاست بہت ہی خطرناک ہے، کوئی بھی کسی حد تک جا سکتا ہے۔ آج عدم اعتماد اور اعتماد کے ووٹ پر قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں فیصلہ ہو جانا چاہیے کہ کون اگلا وزیراعظم اور پنجاب کا وزیراعلیٰ ہوگا۔ وفاق میں تو نمبر گیم واضح ہو گئی ہے۔ البتہ معلوم نہیں کہ پنجاب میں گجرات کے چوہدریوں کا دھوبی پٹکا سیدھا پڑتا ہے یا اُلٹا؟ لیکن کپتان اور اس کی ٹیم کچھ بھی کرنے پہ تُلی بیٹھی ہے۔
وزیراعظم عمران خان عدم اعتماد کے ووٹ کے باوجود اگلے وزیراعظم کے انتخاب کو ملتوی کرنے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں کہ اس اثنا میں قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف کو گرفتار کر لیا جائے، اپوزیشن رہنماؤں پہ غداری کے مقدمات قائم کیے جائیں، عالمی سازش کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کردیا جائے۔ غرض کوئی بھی حربہ جو پارلیمانی نظام کو پٹری سے اُتار دے۔ وزیراعظم نے آخری وقت میں آرمی سے استدعا کی کہ وہ استعفیٰ دے کر اگلے انتخابات کا اعلان کر سکتے ہیں بشرطیکہ اپوزیشن عدم اعتماد کی قرار داد واپس لے لے۔
یہ درخواست کی بھی گئی تو اس وقت جب وہ اپوزیشن کو ان کے خلاف نام نہاد امریکی سازش کا آلہ کار ہونے کا خوفناک الزام لگا کر ”غدارِ وطن“ قرار دے چکے تھے۔ بات صرف الزام بازی کی نہیں۔ اقتدار میں جمے رہنے یا اقتدار میں واپسی کے لیے عمران خان نے امریکہ پر الزام بازی کا طوفان کھڑا کر کے اپنی عوامی مقبولیت بحال تو کی ہے لیکن ملکی سلامتی کو خطرات سے دوچار کرکے۔ وہ خط جس کو 27 مارچ کے جلسے میں لہرایا گیا تھا، امریکہ میں پاکستانی سفیر کی پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے ان کی آخری رپورٹ نکلی۔
حکومتی حب الوطنی کی رگ پھڑکی بھی تو تین ہفتے بعد اور کابینہ کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے تیر مارا بھی تو صرف اتنا کہ سفارت کاری کے ذریعے امریکہ سے احتجاج کیا جائے گا اور ایک احتجاجی مراسلہ امریکہ کے ایکٹنگ چارج ڈی افیئر کے حوالے کر بھی دیا گیا۔ دریں اثنا امریکی وزارتِ خارجہ اور وہائٹ ہاؤس نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی سختی سے تردید کرتے ہوئے پاکستان میں آئین و قانون کی حکمرانی کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ اس سے آگے ریاستِ پاکستان اور ہمارے نئے نئے قوم پرست رہنما کر بھی کیا سکتے ہیں؟ قوم سے خطاب میں ہمارے بیباک وزیراعظم کی زبان گھبراہٹ اور خوف میں امریکہ کا نام لے کر ایسی لڑکھڑائی کہ میڈیا میں ان کا تماشہ لگ گیا۔ اپنی سیاسی زندگی میں عمران خان نے کیا کیا روپ ہیں جو نہیں دھارے، اب وہ امریکی سامراج کے خلاف ایک قوم پرست محب وطن رہنما بننے کی کوشش میں ہیں۔
ذرا اس عالمی امریکی سازش کی طفلانہ کہانی کا جائزہ تو لیا جائے۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد پاکستان اب ایک بھولا بسرا اتحادی ہو چکا۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے معاہدے سے انخلا تک پاکستان اپنا کردار ادا کر چکا۔ اڈوں کی ضرورت رہی، نہ اڈے مانگے گئے۔ اور اگر امریکی اڈے مانگ لیتے تو انکار کس مائی کے لعل نے کرنا تھا؟ پاکستان امریکہ کے دائمی اتحادیوں میں بڑا اتحادی رہا ہے اور دوبارہ ایسا بننے کے لیے بےچین بھی ہے۔
مگر عالمی اسٹرٹیجک جتھہ بندی میں اب بھارت چین کے خلاف چار طاقتی محاذ میں امریکہ کا بڑا اتحادی ہے۔ اور پاکستان چین سے اپنے وسیع تر مفاد میں وابستگی سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا، گو کہ ریاست کسی نہ کسی طریقے سے امریکہ کا دامن پکڑے رکھنے پہ مصر ہے۔ ایسی صورت میں کون سی سازش اور کیسی سازش؟ گزشتہ ساڑھے تین برس میں عمران حکومت نے امریکی انتظامیہ کی مسلسل مدد کی ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد کے توسط سے صدر ٹرمپ کے داماد کشنر تک رسائی حاصل کی گئی اور صدر ٹرمپ کو کشمیر پہ ثالث بنا کر دوسرا ”ورلڈ کپ“ اٹھائے ہمارے کپتان واشنگٹن سے کامران لوٹے تو پتہ چلا کہ وزیراعظم مودی نے ٹرمپ کی اشیر باد سے 5اگست 2019کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ہی ختم کردی۔
وہ اسلامی کانفرنس جو عمران خان نے ترکی کے صدر اردوان اور ملائیشیا کے مہاتیر محمد کے ساتھ مل کر کوالالمپور میں منعقد کرنے میں پہل قدمی کی تھی، ریاض سے ایک فون پر عمران خان آخری وقت میں بھاگ گئے تھے۔ ابھی جس رپورٹ کا بڑا ڈرامہ لگایا گیا ہے وہ 7مارچ کو موصول ہوئی تھی جس سے کئی ماہ قبل اپوزیشن نے عدم اعتماد لانے کا منصوبہ بنایا تھا، اس کے بعد بھی اسلام آباد میں آرگنائزیشن آف اسلامک کو آپریشن کے اجلاس میں امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ کو مدعو کیا گیا تھا اور وزیر خارجہ نے امریکہ کے لیے گہری دوستی کے جذبات اور تعلقات کو وسیع تر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ جب عدم اعتماد کا ووٹ سر پہ آیا، اتحادی ساتھ چھوڑ گئے، حکومتی کارکردگی صفر، قرض دگنے اور مہنگائی عروج پہ تو کوئی ”حیران کن“ ڈرامہ رچانے کی سوجھی۔ 27مارچ کے جلسے میں جو سانپ نکالا گیا وہ اب پاکستان کی دست نگر اور طفیلی ریاست کے گلے میں چھچھوندر بن کے رہ گیا ہے۔ پاکستان میں اینٹی امریکن ازم کی روایت کی جڑیں بہت گہری ہیں، اس لیے عالمی سازش کا یہ کارڈ عمران خان کی حب الوطنی اور اپوزیشن کی غداری ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
کسی مفکر نے خوب کہا ہے کہ حب الوطنی یا قوم پرستی بدمعاشوں کی آخری پناہ گاہ ہے۔ عمران خان در حقیقت ایک پاپولسٹ لیڈر ہیں، ان کی شخصیت نہایت دلکش اور کردار دیومالائی ہے۔ وہ پہلے پاکستان کے ہیرو کے طور پر سامنے آئے، لیکن مقتدرہ کی سرپرستی اور مدد سے اقتدار کے لیے انہوں نے انہی مافیاز کے بڑے جغادریوں کو ساتھ ملایا جن کو ختم کرنے کے لیے وہ میدان میں اُترے تھے۔ ایک دست نگر معیشت میں انہیں وہ کشکول اٹھانا پڑا جو وہ توڑنے کا وعدہ کر کے آئے تھے۔
وہ اب ایک آزاد خارجہ پالیسی کا خالی خولی نعرہ ایک طفیلی ریاست میں لگا رہے ہیں جس کی کہ وہ خود پیداوار ہیں۔ اب جبکہ ہائبرڈ نظام زمین بوس ہورہا ہے، سیاسی قوتوں کو چاہیے کہ پارلیمانی جمہوریت کو پٹری سے اتارنے کی عمران خان کی کوششوں کو ناکام بنایا جائے اور جلد از جلد آزادانہ انتخابات کے انعقاد سے نیا عوامی مینڈیٹ حاصل کیا جائے۔ اگلے وزیراعظم کو پہلے ہی خطاب میں پوری پارلیمنٹ کی کمیٹی بنا کر پاکستان کے امریکہ میں سابق سفیر کی رپورٹ کی تحقیقات کرنے، انتخابی اصلاحات اور آئندہ انتخابات کے شیڈول کا اعلان کردینا چاہیے۔ وگرنہ عمران خان جمہوری تسلسل کے لیے بڑے ہی خطرناک ثابت ہوں گے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔