05 اپریل ، 2022
عمران خان کے کلاسیکی سرپرائز یا دوسرے لفظوں میں آئین سے کھلواڑ نے ملک میں قبل ازوقت پارلیمانی الیکشن کی راہ ہموار کر ہی دی۔ اپوزیشن کے چیمپئن ششدر ہیں کہ عمران خان کے پاس تُرپ کا آخری پتہ آئین سے انحراف نکلا! ان سب کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں۔
سوال یہ ہے کہ وفاقی حکومت قبل از وقت ختم ہونے سے کیا خود آپ اپنے دام میں صیاد آگیا یا صیاد یعنی شکاری نے کمال مہارت سے سارے دھاڑتے شیر پنجرے میں قید کر لیے ہیں؟
یوں تو شاید ہی کوئی ہو جس نے ٹھیک اس بات کاامکان ظاہر کیا ہو کہ عمران خان کیا انتہائی قدم اٹھائیں گے مگر آپ کی یاد دہانی کے لیے راقم نے 27 مارچ کو جیونیوز ہی کے لیے اپنے کالم بعنوان 'عمران خان کے پاس کونسا تُرپ کا پتہ باقی ہے؟' میں واضح لکھا تھا کہ وزیراعظم کے پاس سب سے بہترین ہتھیار قبل از وقت الیکشن ہیں۔
ملک میں تیزی سے بدلتی صورتحال میں یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ پاکستان تحریک انصاف وقت سے پہلے الیکشن میں کتنی نشستیں حاصل کرسکتی ہے تاہم یہ طے ہے اس بار آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے جن شرائط پر عمل کیا جانا تھا اگر عمران حکومت قائم رہتی تو ملک میں منہگائی اس قدر زیادہ کرنا پڑتی کہ لوگوں کو دن میں تارے نظر آجاتے اور راتیں کروٹیں بدلنے میں گزرجاتیں۔
حکومت تین سال سے منہگائی کے جو طوفان عوام پر مسلط کررہی تھی،اس نے سوچ رکھا تھا کہ آخری سال یعنی الیکشن کے موقع پر کچھ عوام دوست بجٹ بنا کر ووٹرز کو بہلا پھسلا لیا جائے گا۔ ہوا الٹا کیونکہ وبا تقریباً ختم ہونے کے باوجود معیشت بحال نہ کی جاسکی۔ نا ہی عمرانی دور کے ٹاپ معیشت داں ملکی برآمدات بڑھاسکے،نتیجہ یہ کہ حکومت کاآخری سال پہلے چار سالوں کی نسبتا کہیں زیادہ مشکل ہوتا نظر آیا۔
عمران حکومت شاید راہ فرار ہی تلاش کررہی تھی کہ دھمکی آمیز خط نامی ہتھیار اس کے ہاتھ آگیا۔ اس میں کتنی حقیقت اورکتنا فسانہ ہے یہ واضح ہو نہ ہو، عمران خان کو اینٹی امریکا کارڈ اور مذہب کارڈ دونوں ہی استعمال کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ یہ دونوں کارڈ استعمال کرکے کیا عمران خان ایک بار پھر الیکشن جیت سکتے ہیں؟
یہ درست ہے کہ الیکشن جیتنے کے لیے الیکٹیبلز کی ضرورت پڑتی ہے اور پی ٹی آئی کی منڈیر سے کئی پرندے قبل از وقت اُڑ کر دوسری منڈیروں پر جابیٹھے ہیں۔ عمران خان مذہب اور اینٹی امریکا کارڈ استعمال کرکے کتنی نشستیں جیت پائیں گے، یہ اندازہ لگانا مشکل ہے ۔ وجہ یہ بھی ہے کہ چار برس پہلے جب الیکٹیبلز عمران خان کےساتھ تھے تب بھی انہیں اتحادیوں پر انحصار کرنا پڑا تھا۔
اہم بات یہ ہے کہ ایک طرف اینٹی امریکا اور مذہب کارڈ استعمال کیا جارہا ہو تو سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے لیے کتنا چیلنجنگ ہوگا کہ وہ اپنا بیانیہ عوام کے سامنے پیش کرسکیں اور ایک بار پھر لوگوں کی توجہ اس منہگائی کی جانب لاسکیں جس کے نام پر پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے الگ الگ لانگ مارچ کیے تھے؟
اپوزیشن میں شامل تمام جماعتیں عمران خان کیخلاف متحد سہی مگر اب الیکشن سر پر ہیں اس لیے یہ ایک دوسرے کے گلے میں زیادہ بانہیں نہیں ڈال سکتے، اب امیدواروں کو قومی اور ممکنہ طورپر بعض صوبوں میں صوبائی حلقوں کی نشستوں پر ٹکٹ دینے کا مرحلہ ہے۔ پی ٹی آئی کی مچان سے موسمی پرندے اُڑ اُڑ کر مختلف مچانوں پر بیٹھے ہی اس لیے تھے کہ انہیں ٹکٹوں کی صورت میں دانوں کی تلاش تھی۔ پرانے سیاسی کارکن بھی ٹکٹوں کے خواہشمند ہیں اور زرا سی بے اعتنائی انہیں ناراض کرکے دوسرے کیمپ میں دھکیل سکتی ہے۔
پیپلزپارٹی ہو یا ن لیگ دونوں بڑی جماعتوں کے لیے مشکل یہ ہے کہ اب ساتھ چلنا آسان نہیں، نہ صرف خواہش مند افراد کو ٹکٹ دینا ہیں بلکہ ایک دوسرے کےخلاف تلواریں میان سے باہر نکالنا ہوں گی، خونخوار شیروں کو ایک دوسرے پر آزادانہ حملوں کی اجازت دینا پڑے گی۔ ایسا کرنے کے بجائے سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر توجہ دی گئی تو ممکن ہے ان حلقوں میں پی ٹی آئی کو مشکل سے دوچار کردیا جائے مگر ساتھ ہی خطرہ ہے کہ عمران خان کا یہ موقف پھر غالب آجائے کہ اپنی چوریاں بچانے کے لیے نواز زرداری بھائی بھائی بنے ہوئے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ نے جس بُت کو تراش کرکے اس میں روح پھونکی تھی، اس کے پاس گنوانے کے لیے کچھ نہیں۔ عمران خان کی فیملی سیاست میں ہے اور نہ ہی اس کے آنے کا امکان ہے۔ وہ کھلنڈرا جو وزیراعظم بننا چاہتا تھا، بن چکا۔ مگر جس ملک میں خاندانی سیاست کا نظام ستر برس سے چلا آرہا ہو اور اب تمام بڑی جماعتوں کے رہنماوں کی نئی نسل میدان میں ہو، یہ بڑا چیلنج ہوگا کہ کس طرح اینٹی امریکا اور مذہب کارڈ کیخلاف ڈھال بنائی جاسکے۔
پاکستان میں اینٹی امریکا اور مذہب کارڈ کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے، یہ دُہری دھار والی تلوار ہےجس کیخلاف فولاد کی ضرورت ہے۔ عوام جانتی ہے کہ عمران خان نے غیر آئینی اقدام کے زریعے خود کو عدم اعتماد کی تحریک سے بچا لیا مگر الیکشن میں پی ٹی آئی قابل زکر نشستیں لے گئی تو پھرنہ کوئی شریف برداران کی سیاسی چالوں کا معترف رہے گا اورنہ مولانا فضل الرحمان کے لشکرعظیم کو خاطر میں لائے گا، سب سے بڑھ کر یہ کہ اک زرداری، سب پہ بھاری کا نعرہ کھوکھلا رہ جائےگا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔