Time 06 اپریل ، 2022
پاکستان

پاکستان سیاسی گرداب میں

افسوس صرف اس بات کا ہے کہ ہم سب سے زیادہ دنیا دیکھنے والے، مغرب کو سب سے زیادہ سمجھنے والے، اخلاقیات کا سبق دیتے کرکٹ لیجنڈ وزیراعظم عمران خان نے اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ نہیں کیا ورنہ وہ استعفیٰ دے کر ایک اعلیٰ مثال بھی قائم کر سکتے تھے۔ کھلاڑی آخری بال تک ضرور لڑتا ہے مگر ہار جائے تو شکست تسلیم بھی کرتا ہے۔ 

مجھے کرکٹ دیکھنے کا جنون کی حد تک شوق رہا ہے اور اسپورٹس مین اسپرٹ کے حوالے سے میں عمران کے کزن ماجد خان سے بہت متاثر ہوں۔ اسے جب بھی لگتا تھا کہ بال اس کے بلے کو چھو کر وکٹ کیپر کے پاس گئی ہے تو وہ امپائر کی انگلی کی طرف دیکھے بغیر کریز چھوڑ دیتا تھا۔ 

اتوار کے روز قومی اسمبلی میں چار منٹ کا جو تماشہ ہوا اس نے بہت سے سنجیدہ سوالات کو جنم دیا ہے۔ حکومت اتنی جلدی میں تھی کہ ڈپٹی اسپیکر رولنگ پڑھتے وقت اسپیکر اسد قیصر کا نام بھی لے گئے جن کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک اسی دن جمع ہو گئی تھی۔ یہی کام ذرا بہتر انداز میں اپوزیشن کے ایک دو لوگوں کو سن کر ہی کرلیتے۔

وزیراعظم اور ان کے رفقاء کار نے 8 مارچ سے لے کر 27مارچ تک پوری کوشش کی کہ منحرفین واپس آجائیں، اتحادی مان جائیں اور انہیں پورا یقین تھا کہ وہ تحریک کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اب اگر ’بین الاقوامی سازش‘ کا پتا انہیں 7مارچ کو چل گیا تھا تو پھر یہ ساری کوششیں کس لیے تھیں۔ یہ انکشاف اس وقت کیوں کیا گیا جب تمام تر ذاتی ملاقاتوں اور پارٹی رہنماؤں کی کوششوں کے باوجود کوئی واپس آنے کو تیار نہ ہوا۔ 

پھر جیسا کہ ہوتا ہے، آپ نے منحرفین کے گھر والوں تک کو دھمکی دیدی مگر وہ پھر بھی واپس نہ آئے۔ اس سے بہت بہتر ہوتا کہ کپتان اکثریت کھونے کے بعد میدان میں مقابلہ کرتے۔ الیکشن میں جانے کے علاوہ آپ کے پاس کوئی راستہ ہی نہیں تھا کیونکہ دوسری طرف 190 سے زیادہ اراکین تھے۔

آخر خان صاحب یہ بھی تو بتائیں کہ ان منحرفین کو پارٹی میں لانے کا فیصلہ کس کا تھا؟ اتحادیوں کو کس نے آپ کے حوالے کیا تھا ساری زندگی ’’نیوٹرل ایمپائر‘‘ لانے کا کریڈٹ لینے والے کپتان کو اب نیوٹرل جانور کیوں نظر آنے لگے۔ بہرحال اس وقت صورتحال یہ ہے کہ قومی اسمبلی تحلیل ہے اور سب کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں۔ 

عین ممکن ہے کہ جس ’امریکی سازش‘ کا انکشاف کیا گیا ہے اس کی تحقیقات کے لیے کوئی کمیشن بھی تشکیل پا جائے۔ یہاں کچھ سوالات متحدہ اپوزیشن سے بھی ہیں۔ کیا عدم اعتماد کی تحریک کے لیے یہ وقت مناسب تھا جبکہ الیکشن میں ایک سال باقی تھا اور پنجاب اور سندھ میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کو کامیابی مل رہی تھی یہی صورتحال کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن میں سامنے آئی اور سب سے بڑھ کر خیبر پختونخوا میں بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں عدم اعتماد کی تحریک کے بعد تو جیسے خان صاحب کی لاٹری نکل آئی اور دوسرے مرحلے کا نتیجہ سامنے ہے۔ 

ان الیکشن سے کوئی چار دن پہلے آرٹس کونسل میں ایک تقریب کے دوران فریال تالپور صاحبہ سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگیں KP میں پی ٹی آئی فارغ ہے۔ میں نے کہا، معذرت کے ساتھ دوسرا مرحلہ وہ جیتنے جا رہے ہیں اور ابھی کچھ اور سرپرائز بھی آئیں گے۔ اب میدان دوبارہ سجنے والا ہے اور لگتا کچھ یوں ہے کہ امپائر نے فیصلہ کیا ہے کہ میچ دیکھنا ہے کھیلنا نہیں ہے۔ خاصی اوپن فیلڈ ملنے جارہی ہے۔

عمران نے امریکہ مخالف کارڈ اور شریف، زرداری، مولانا مخالف کارڈ کھیلنا ہے۔ ایک سرسری جائزہ آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں جو غلط بھی ہو سکتا ہے مگر الیکشن میں ممکنہ طور پر کیا ہو سکتا ہے۔ KP میں آج بھی پی ٹی آئی سب سے مضبوط جماعت نظر آرہی ہے مگر دوسرے صوبوں کی طرح تنظیمی مسائل کا شکار ہے۔ تاہم دوسرے مرحلے کا کریڈٹ ایک بار پھر پرویز خٹک کو جاتا ہے۔ یہاں مقابلہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی میں ہی نظر آ رہا ہے۔

کراچی میں سب سے دلچسپ مقابلے ہونے جارہے ہیں کیا پی پی پی، متحدہ معاہدے پر عملدرآمد شروع ہونے جارہا ہے اگر یہ معاہدہ اتحاد کی شکل اختیار کرلیتا ہے تو شاید فائدہ دونوں کو ہو ورنہ پی ٹی آئی اس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتی ہے مگر اس چیز کا امکان نہیں کہ اسے ماضی کی طرح 14 نشستیں قومی اور 25 صوبائی کی ملنے جا رہی ہیں۔ 

ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہونے کا امکان ہے۔ جماعت اسلامی، تحریک لبیک اور پاک سرزمین پارٹی بھی بھر پور مقابلے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ کچھ خبریں ایم کیو ایم (لندن) کے دوبارہ متحرک ہونےکی بھی ہیں۔ سندھ کے دیگر شہروں میں خاص طور پر دیہی سندھ میں پی پی پی کو کسی بڑے چیلنج کا سامنا نہیں۔

بلوچستان کی سیاست کا اپنا مزاج ہے مگر حالیہ عدم اعتماد کی تحریک کے دوران سابق صدر آصف علی زرداری نے تقریباً تمام موثر جماعتوں کو اپنے ساتھ کمال مہارت سے جمع کرلیا لہٰذا وہاں اپوزیشن مضبوط نظر آتی ہے۔

اصل مقابلہ پنجاب میں ہونا ہے۔ کپتان کو یقین ہے کہ یہاں ان کا ’امریکی مخالف کارڈ‘ چلے گا مگر مشکل یہ ہے کہ نہ ان کے پاس اس وقت جہانگیر ترین ہیں نہ علیم خان اور نہ ہی چوہدری سرور۔ اس وقت اہم کردار اتحادی چوہدری پرویز الٰہی، شاہ محمود قریشی، خسرو بختیار، فواد چوہدری وغیرہ کا ہوگا۔ یہاں کی سیاست طاقتور برادریوں اور گھرانوں پر ہے۔ الیکٹ ایبلز اور منحرفین کا اپنا رول ہوگا۔

دوسری طرف مسلم لیگ (نواز) آج بھی صوبے کی سب سے مضبوط جماعت ہے اور چارسال میں اس کو توڑنے کی ساری کوششیں ناکام رہیں۔ تنظیمی طور پر بھی اسے پی ٹی آئی پر برتری حاصل ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اپوزیشن کو شکر ادا کرنا چاہئے کہ چند ماہ یا ایک سال کے لیے ان کی حکومت نہیں بنی ورنہ شاید آنے والی مہنگائی کا حساب انہیں دینا پڑتا۔ الیکشن کا یہ مختصر اور سرسری جائزہ امپائر کے نیوٹرل رہنے سے مشروط ہے ورنہ نتائج کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔ مقابلہ تو نام ہی فیئرپلے کا ہے جو پاکستان میں ہمیں کم ہی نظر آیا ہے۔

بہتر ہوتا جمہوریت اپنے تسلسل کے 15سال مکمل کرتی، پرامن انتقال اقتدار ہوتا اور لوگوں کی خوشحالی کیلئے بھی کچھ اقدامات کئے جاتے۔ پر کیا کریں ’کرسی‘ کی کا نشہ ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی چھوڑنے کو تیار نہیں۔ اس وقت ضرورت ہے ایک وسیع سیاسی و معاشی ڈائیلاگ کی۔ کیا یہ ممکن ہے؟ شاید ابھی نہیں۔

مزید خبریں :