06 جون ، 2025
واشنگٹن: امریکا کے دورے پر آئے پاکستانی وفد کے سربراہ اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھارت کی جارحیت کامعاملہ ٹرمپ انتظامیہ کے سامنے مدلل انداز سے اٹھا دیا۔
پاکستانی وفد کا دورہ امریکا کا آج آخری روز ہے اور اس دورہ واشنگٹن میں وفد نے یوں تو کئی اہم اراکین کانگریس سے ملاقاتیں کیں تاہم ٹرمپ انتظامیہ سے امریکی دارالحکومت میں یہ پہلی ملاقات تھی، اس سے پہلے وفد نے اقوام متحدہ میں امریکا کی مستقل مندوب سے نیویارک میں ملاقات کی تھی۔
تفصیلات کے مطابق بلاول بھٹو سمیت پاکستانی وفد نے امریکا کی انڈر سیکرٹری برائے امور خارجہ ایلیسن ہوکر سے واشنگٹن ڈی سی میں ملاقات کی۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی میں معاونت پر بلاول بھٹو نے کہا کہ جنگ بندی جیسے مشکل مرحلے کے حصول پر امریکی قیادت تعریف کی مستحق ہے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو نے جنگ بندی میں کردار پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر خارجہ مارکو روبیو کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے امید ظاہر کی کہ امریکی انتظامیہ کی یہ معاونت جنوبی ایشیا میں ڈائیلاگ کے زریعے دیرپا امن اور استحکام کا موقع پیدا کرے گی۔
اس سے پہلے اے ایف پی کو انٹرویو دیتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا جس طرح امریکا کے صدر ٹرمپ نے اس جنگ بندی کے حوالے سے حوصلہ افزا کردار ادا کیا اسی طرح انہیں دونوں فریقین کو جامع مذاکرات کی میز پر لانے میں بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے حوالے سے ہندوستانی حکومت کی ہچکچاہٹ معنی خیز ہے، پاکستان بھارت کے ساتھ دہشت گردی پر بات کرنے کے لیے تیار ہے لیکن کشمیر کو بنیادی تنازع کے طور پر میز پر لانے کی ضرورت ہے۔
بلاول بھٹو نے خبردار کیا کہ بھارت جنوبی ایشیا میں ایک خطرناک مثال قائم کر رہا ہے جس کے تحت کوئی بھی ملک دہشت گردانہ حملہ ہونے کی صورت میں جنگ چھیڑ نے کا بہانہ گھڑ سکتا ہے۔
سابق وزیر خارجہ بولے 1.7 ارب لوگوں اور ہماری دو عظیم قوموں کی تقدیر کو بے نام، بے چہرہ، غیر ریاستی اداکاروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا اور نہ ہی اسے اس نیو نارمل کی صورتحال سے دوچار کیا جاسکتا ہے جو بھارت مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں وفد نے پاکستان ہاؤس میں پاکستانی سفیر رضوان سعید شیخ کی میزبانی میں منعقدہ عشائیہ میں ری پبلکنز اور ڈیموکریٹ امریکی قانون سازوں کے گروپ سے جمعرات کی شب ملاقات بھی کی۔
اس تقریب میں امریکی کانگریس کے اراکین بشمول جیک برگمین، ٹام سوزی، ریان زنکے، میکسن واٹرز، ایل گرین، جوناتھن جیکسن، ہینک جانسن، اسٹیسی پلاکٹ، ہنری کیوئلار، مائیک ٹرنر، رائلی مور، جارج لیٹیمیر اور کلیو فیلڈز سمیت دیگر نے شرکت کی۔
امریکی قانون سازوں سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خطے میں امن و استحکام کی اہمیت کو اجاگر کیا اور وفد کے دورے کو ’’امن کا مشن‘‘ قرار دیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیرِاعظم محمد شہباز شریف نے اس وفد کو ایک مشن دیا ہے، اور وہ مشن ہے "امن"، جس میں بھارت سے بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنا شامل ہے۔
حالیہ بھارتی جنگی بیانیے اور موجودہ جنگ بندی کی نازک نوعیت کا حوالہ دیتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے مستقبل میں ممکنہ کشیدگی کے خطرات پر روشنی ڈالی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ جنگ بندی خوش آئند ضرور ہے لیکن یہ محض ایک آغاز ہے، حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ایشیا، بھارت اور پاکستان، اور بالواسطہ طور پر پوری دنیا، آج اس بحران کے آغاز کے وقت کی نسبت زیادہ غیر محفوظ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مکمل جنگ کی حد آج ہماری تاریخ میں کبھی بھی اتنی کم نہیں رہی، اگر بھارت میں کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے، ثبوت ہو یا نہ ہو، اس کا مطلب جنگ سمجھا جاتا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے بھارت کی جانب سے یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے (Indus Water Treaty) کی معطلی کے ممکنہ نتائج پر بھی امریکی قانون سازوں کو آگاہ کیا۔
سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت کی 24 کروڑ پاکستانیوں کے لیے پانی بند کرنے کی دھمکی ایک وجودی خطرہ ہے، اگر بھارت نے یہ اقدام کیا تو یہ جنگ کے اعلان کے مترادف ہو گا۔
سابق وزیر خارجہ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کے حصول میں امریکہ کے کردار کو سراہا اور امریکی قانون سازوں سے مطالبہ کیا کہ وہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے قیام کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہاں آپ سے اپیل کرنے آئے ہیں کہ امریکہ ہمارے اس امن کے مشن میں ہمارا ساتھ دے، اگر امریکہ اپنی قوت امن کے پیچھے لگا دے تو وہ بھارت کو سمجھایا جاسکتا ہے کہ ہمارے مسائل کو حل کرنا، بشمول بھارتی غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر (IOJK) کا مسئلہ، ہم سب کے مفاد میں ہے۔
انہوں نے سفارت کاری کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے امریکی حکومت اور کانگریس سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان بامقصد اور تعمیری بات چیت میں معاونت کریں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ جس طرح ہمیں جنگ بندی کے لیے امریکا کی فوری مدد کی ضرورت تھی، آج بھی ہمیں آپ کی فوری مدد درکار ہے تاکہ بھارت کو ایسی پالیسیوں سے روکا جا سکے جو خطے اور دنیا کے لیے عدم استحکام کا باعث بنیں۔
امریکی کانگریس کے اراکین نے جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کے لیے اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا اور جاری بحران پر پاکستانی وفد کی تفصیلی بریفنگ کو بھی سراہا۔
عشائیہ کے اختتام پر امریکا میں پاکستان کے سفیر رضوان سعید شیخ نے امریکی قانون سازوں کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس اعلیٰ سطح کے وفد کے ساتھ ملاقات کی اور تبادلہ خیال کیا۔