08 اپریل ، 2022
پاکستان تحریک انصاف کی رہنما اور وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے سپریم کورٹ کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق فیصلے کو عدالتی مارشل لاء قرار دیدیا۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے 3 اپریل کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی کو پرانی حالت میں بحال کرنے اور تحریک عدم اعتماد کے لیے دوبارہ اجلاس بلانے کا حکم دیا تھا۔
اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے عدالتی فیصلے کو تاریخ ساز قرار دیا گیا تھا جبکہ حکومتی اراکین کی جانب سے فیصلے پر سخت تنقید کی گئی تھی۔
فواد چوہدری نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ملک کو غلامی کی طرف لے جانے کی کوشش ہے جبکہ شہباز گل کا کہنا تھا لگتا ہے اب 1947 کی صورت حال میں واپس پہنچ گئے ہیں۔
اب اس معاملے پر وفاقی وزیر شیریں مزاری کا بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
شیریں مزاری نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں لکھا کہ گزشتہ رات ایک عدالتی مارشل لاء نافذ کیا گیا، عدالتی فیصلے میں پارلیمانی برتری کو ختم کرتے ہوئے یہ تک لکھوایا گیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس کب اور کس وقت ہونا چاہیے۔
وفاقی وزیر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مزید لکھا کہ امریکا کی جانب سے حکومت کو تبدیل کرنے کا معاملہ جس نے ڈپٹی اسپیکر کو رولنگ پر مجبور کیا اسے سرے سے نظر انداز کر دیا گیا لیکن یہ اختتام نہیں ہے۔