بلاگ
Time 13 اپریل ، 2022

عمران کی انا یا انکار

چلو مبارک ہو ایک اور وزیراعظم اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کئے بغیر رُخصت ہوا اور ہم نے یہ 75سالہ ریکارڈ برقرار رکھا حالانکہ اس میں کتنے سال ہی جمہوریت رہی ۔ ایک جمہوری سوچ رکھنے والے کے لیے یہ لمحہ مٹھائی کھانے کا نہیں فکر مند ہونے کا وقت ہے۔اب یہ پورا معاملہ کسی سمری کے تنازع کا ہے یا کسی مراسلے کا ہے مگر اتوار کی شب پاکستان کے مختلف شہروں میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے پر جو احتجاج ہوا اُس سے ایک چیز تو واضح ہو گئی ہے اور وہ اُس امریکہ مخالف بیانیے کے ممکنہ اثرات کے ساتھ بہت سے جنم لینے والے خطرناک رجحانات ہیں جن کی وجہ سے آج بھی کراچی کی ایک جماعت، وہ جس شکل میں بھی ہو، ریاست مخالف مقدمات کا سامنا کر رہی ہے۔ یہی مقابلہ کچھ دیگر جماعتوں اور گروپوں کے ساتھ بھی درپیش ہے۔ 

ان مظاہروں سے جن میں بڑی تعداد اُن ووٹرز کی ہے جو خان صاحب سے 2013ء سے جُڑے ہوئے ہیں۔ اُن فیملیز کی ہے جو پہلے کبھی ووٹ نہیں دیا کرتی تھیں۔ لگتا یہی ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک، امریکہ کی مبینہ سازش کا تاثر اوراُن کا وقت سے ایک ڈیڑھ سال پہلے وزارتِ عظمیٰ سے ہٹایا جانا اُنہیں ردِعمل کے طور پر سڑکوں پر لے آیا ہے۔ اب یہ احتجاج آگے چل کر کیا شکل اختیار کرے گا اس کا دارومدار موجودہ حکومت پر ہے۔ اگر ایک اعلیٰ سطحی کمیشن سپریم کورٹ کے حاضر ججوں پر مشتمل بنادیا جائے جو اس پورے معاملہ کو دیکھے، تحقیق کرے تو کسی حد تک یہ تاثر زائل ہوسکتا ہے ورنہ تو ہمارے ملک میں سیاست ہوتی ہی تاثر پر ہے اب اُس میں حقیقت ہو یا نہ ہو۔ ویسے بھی یہ سوشل میڈیا کا دور ہے سچ اور جھوٹ میں تمیز کانہیں۔

عمران خان ایک سیاسی حقیقت ہیں اور 2018ء میں اُن کی حکومت بنانے میں امپائر نے جتنی بھی مدد کی ہو اس بات کو رَد کرنا ممکن نہیں کہ وہ مقبول رہنما نہیں ہیں یہ ایک غیر سیاسی اپروچ ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال 2013ء کا الیکشن ہےجس میں اُنہیں پہلی بار بڑی کامیابی ملی۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پچھلے ایک ماہ میں جو کچھ اسلام آباد میں ہوا خاص طور پر 9اور 10اپریل کو اس میں خان صاحب کے ’’انکار‘‘ کے مقابلے میں اُن کی انا آڑے آگئی ورنہ تو وہ بہت پہلے ہی قومی اسمبلی میں اکثر یت کھو بیٹھے تھے کیونکہ اتحادی ساتھ چھوڑ گئے تھے۔ کچھ دوستوں نے مشورہ بھی دیا استعفیٰ دینے کا مگر بعض نے آخری گیند تک لڑنے کا کہا۔

 حالانکہ آخری بال میچ ختم ہونے کے بعد کرائی جائے تو بے نتیجہ ہوتی ہے۔ یہاں میچ 28مارچ کو ختم ہوگیا تھا اور 3اپریل کو صرف نتیجہ سننے کا حوصلہ چاہئے تھا۔رہ گئی بات متحدہ اپوزیشن کی تو اُن کا سب سے بڑا امتحان تو خود متحد رہنا ہے۔ جو وعدے اور معاہدے کئے گئے اُن پر عمل کا آغاز اور پھر ایک سال کے لیے پاور شیئرنگ اور پھر سنگین معاشی بحران، مہنگائی کا طوفان، نئے وزیر اعظم کے لیے اِن مشکلات پر قابو پانا تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔ اسی لیے بنیادی سوال یہی تھا کہ پچھلی حکومت کو ایک سال پورا کرنے دیتے اور وہ اپنا پانچ سال کا مینڈیٹ پورا کرتی۔

ایک تگڑی اپوزیشن جو 154اراکین پر مشتمل ہے موجودہ حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ پھر وزیراعظم شہباز شریف کو سنگین مقدمات کا سامنا ہے۔ ایسے میں بہتر ہوتا کہ کوئی اور اس مسند کو سنبھالتا اور شہباز صاحب مقدمے سے بری ہوکر آتے اور پوری مدت کے لیے وزیراعظم بنتے۔ یہی بات حمزہ شہباز کے لیے کہی جاتی ہے۔ ایک سا ل میں آپ کیا اصلاحات کرسکتے ہیں اور وہ بھی حزبِ اختلاف کو ساتھ ملا کر۔ سب سے بڑھ کر عوام کو کیا بڑا ریلیف مل سکتا ہے۔ نواز شریف کی واپسی ہوتی ہے تو سب سے پہلے اُنہیں عدالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ اور ایسے کئی سوالات اور پھر اہم ترین تقرری۔ نظر یہی آتا ہے کہ چند ماہ کے دوران پاکستان میں بہت کچھ ہونے جارہا ہے ’’دھرنا سیزن‘‘ کے علاوہ۔

رہ گئی بات خان صاحب کی تو اُن کی حکومت ساڑھے تین سال نہ صرف ناتجربہ کاری بلکہ ناقص پالیسیوں کا شکار رہی۔ پنجاب اور سابق وزیراعلیٰ کے بارے میں بہت لکھا جاچکا ہے۔ تحریک انصاف درجنوں گروپس میں تقسیم ہے۔ خان صاحب پر تو پوری پارٹی متفق ہے مگر اگلا الیکشن محض بیانیے پر نہیں جیت سکتے۔ یہ تو وہ شکر کریں کہ اُن کے دور کی اپوزیشن نے خود ہی اُنہیں یہ سہولت مہیا کر دی کہ وہ کھل کر کھیلنے کی پوزیشن میں آگئے۔ ورنہ جو اس وقت مہنگائی کا عالم ہے اس کے ساتھ وہ آئندہ انتخابات میں جاتے تو جو مظاہرے اتوار کی رات اُن کے حق میں ہوئے وہ 2023ء میں اُن کے خلاف ہوتے۔ عثمان بزدار کا دور اگر ایک سال اور چلتا تو ممکن ہے، ہمارے دوست فواد چوہدری بھی اُن کے خلاف بول پڑتے۔

عمران خان صاحب نے ان تین سالوں میں کیا سیکھا ہے وہ خود بہتر جانتے ہیں مگر اب اُنہیں پارٹی میں خود متبادل کی طرف بھی غور کرنا چاہئے بات خاندانی سیاست کی ہو یا جماعت کسی ایک شخص کے گرد گھومتی رہے دونوں ہی غیر جمہوری رویے ہیں۔ یہ سوال صرف خان صاحب کے لیے ہی نہیں آصف زرداری، میاں نواز شریف اور کچھ سیاست دانوں کے لیے بھی ہے کہ اب تو اپنی جماعتوں میں انتخابات کے کلچر کو فروغ دیں۔کیا یہ بات کسی المیے سے کم نہیں کہ ہم اب تک جمہوریت کو مضبوط کرنے میں ناکام رہے ہیں جس دن سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا وہ 10اپریل کا دن تھا۔ وہ دن جب آج سے 49سال پہلے سیاست دانوں نے متفقہ طور پر 1973ء میں اس ملک کو ایک آئین دیا جس کا حلیہ نہ صرف انہوں نے خود بلکہ فوجی آمروں نے بھی بگاڑ دیا۔ جن کو آئین توڑنے پر آرٹیکل 6کے تحت سزا ہونی تھی اُنہیں آئین میں ترمیم کا اختیار تک دے دیا گیا۔

پاکستان میں قیام پاکستان سے اب تک جس اعلیٰ عدلیہ پر آئین کی حفاظت کی ذمہ داری تھی اُس نے اس کے تحفظ کے بجائے توڑنے والے کو تحفظ دیا اورجن سیاست دانوں اور رہنمائوں کو ان کے خلاف آواز بلند کرنی تھی انہوں نے بدقسمتی سے کبھی جمہوریت کا تحفہ دیا تو کبھی NROلیا۔ہاں ایمپائر نیوٹرل ہو جائے تو نتائج ہمیشہ بہتر آتے ہیں۔ الیکشن کرانا اور شفاف کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے اور اُسے یہی درجہ ملنا چاہئے۔ ہم نے ان 75سالوں میں بہت کچھ کھو دیا بشمول آدھا پاکستان۔ اب تو ہوش کے ناخن لیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔