16 اپریل ، 2022
اقتدار کے پھرطلبگار عمران خان ان دنوں غیرت بریگیڈ کی کمان کررہے ہیں۔ سادہ لوح عوام کو غیرت کا یہ منجن بہت سے رہنما مختلف انداز سے بیچتے آئے ہیں مگر عشروں بعد اس میں جو نیا مصالحہ ڈالا گیا ہے، وہ کافی تیز ہے اور اس کا زود اثر کراچی، لاہور، اسلام آباد اورپشاور ہر جگہ دیکھا جاسکتا ہے۔
ماضی کی غیرت بریگیڈزکے مقاصد جاننے والے اس بار یہ چورن خریدنے کو تیار نہیں۔ اس طبقہ فکر کو یقین ہے کہ عمران خان محض تاحیات وزیراعظم بننے کے لیے سب کچھ داو پر لگارہے ہیں۔ اس یقین کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عمران خان اور ان کے ہالی موالیوں کا مغرب مخالف زبانی جمع خرچ اپنی جگہ، ان کی عملی زندگی اس کے برعکس ہے۔
لوگوں کے ذہنوں میں سوال گردش کررہا ہے کہ اگر امریکا عمران خان کے خلاف سازش میں مصروف تھا تو عمران کے جواں سال دونوں بیٹے آخر امریکا کے قریب ترین اتحادی برطانیہ میں مقیم کیوں ہیں؟ اولاد ہی انسان کا اصل سرمایہ ہوتی ہے تو یہ سرمایہ برطانیہ ہی میں محفوظ کیوں؟چلیں مان لیتے ہیں کہ بیٹوں کی پرورش سے اعلی تعلیم دلوانے تک سب بندوبست برطانیہ میں کرلیا ہوگا،اب واپسی کی راہ میں کیا حائل ہے؟
شاہ محمودقریشی جن کے بارے میں پی ٹی آئی دعویدار ہے کہ ان کےسینے میں بڑے راز دفن ہیں، لوگ منتظر ہیں کہ وہ یہ راز کب مجمع میں کھولیں گے کہ ان کے بیٹے زین قریشی برسوں پہلے امریکی سینیٹ کی امور خارجہ کمیٹی کے چیرمین سینیٹرجان کیری کے دفتر میں انٹرنشپ کرتا رہا۔ وہ بتائیں گے کہ یہ تعلق کیسے قائم کیا گیا تھا۔آخر جان کیری تو وہی تھے جنہوں نے ساتھی سینیٹرز کے ساتھ مل کر کیری لوگر بل منظور کرایا تھا جس میں پاکستان کی امداد ان متنازع شقوں سے مشروط کی گئی تھی کہ قومی سلامتی پر سوالات کھڑے ہوگئے تھے، آج مجمع کی غیرت جگانے والے شاہ محمود قریشی اس وقت وزیرخارجہ تھے، شاید اُس وقت ان کی غیرت کا معیار کچھ اور ہوگا؟ یا وزارت خارجہ کی چمک نے غیرت کو تھپکی دے کر سُلادیا تھا۔
لوگ وہ منظر بھی بھلا نہیں پارہے جب بارہ برس پہلے بطور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی ہم منبس ہلیری کلنٹن سے ملاقات کی تھی۔ دونوں ملکوں کے تعلقات میں نئی روح پھونکنے کے لیے اس وقت انہوں نے نہ صرف کندھے سے کندھا بلکہ سر سے سر ملاکر ایسے ٹھٹھے مارے تھے کہ مغربی میڈیا بھی معنی خیز انداز میں کہہ اٹھا تھا کہ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟ شاہ محمود قریشی بتانا پسند فرمائیں گے کہ لوگ ان صاحب پر یقین کریں یا آج کے شاہ محمود قریشی پرجو اپنے سینے میں 'راز' دفن کیے بیٹھے ہیں؟
عمران خان کے دست راست ڈاکٹر شہبازگل بھی جانے کیوں اس سازش پر خاموش ہیں؟ کیا امریکی یونیورسٹی کی نوکری جانے کا خطرہ ہے یا گرین پاسپورٹ پر گرین کارڈ بھاری ہے؟ لوگوں کو سمجھ نہیں آرہا کہ اس یونیورسٹی سے تعلق کیا اس لیے تاحال قائم ہے کہ اسے امریکا ہی کیخلاف محاز بنانے کا ارادہ ہے؟
حکومت کے مزے لینے کے بعد زلفی بخاری کی غیرت جاگنے پر بھی زمانہ شناسوں کو تشویش ہے۔ زلفی کہتے ہیں کہ اب کی بار گیا تو برطانوی شہریت ترک کرکے ہی لوٹوں گا،سبحان اللہ! لندن میں رولز رائس میں گھومنے والے زلفی بخاری دل پر پتھر رکھ کر یہ کام کر بھی دیں، جس قدر وہ مالدارہیں، ان کی زندگی پراس کا رتی برابر اثرنہیں پڑےگا کیونکہ وہ جب چاہیں گے برطانیہ میں سرمایہ کاری والا ویزا خرید کر پھر سے یہ شہریت اختیار کرسکتے ہیں۔ کہیں بہتر ہوگا کہ وہ شہریت چھوڑنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے تمام غیرملکی اثاثے رمضان المبارک میں غریب پاکستانیوں میں بانٹ دیں۔
غیرت بریگیڈ ،مبینہ سازش کے نام پر اورسیز پاکستانیوں کو مشتعل کرنے کے بھی چکر میں ہے۔ بہت خوب! کبھی اس بریگیڈ نے سوچا کہ پندرہ لاکھ پاکستانیوں کو آخر کیا تکلیف تھی جو وہ اپنے مادر وطن کو چھوڑ کر امریکا منتقل ہوئے؟ برطانیہ میں آباد تقریبا پندرہ لاکھ کشمیریوں اور پاکستانیوں کوآخر کیا کشش کھینچ کر وہاں لے گئی؟ عمران خان اور انکے ساتھیوںکو یہ خیال آیا کہ دس لاکھ پاکستانیوں کو آخر کیامسئلہ تھا کہ انہوں نے جان جوکھم میں ڈال کر اسپین،یونان، فرانس، جرمنی، ڈنمارک اور یورپ کے دیگر ممالک کی راہ لی۔ کیوں دسیوں لاکھ پاکستانی اپنے پیاروں سے دور خلیجی ممالک میں رہنے کو ترجیع دیتے ہیں؟
سونے پہ سہاگہ یہ کہ عمران خان انہی اوورسیز پاکستانیوں کو دودھ دینے والی گائے سمجھ کر ان سے اپنی انتخابی مہم کیلیے ڈالروں اور پاؤنڈز میں رقم جمع کرتے رہےہیں۔ غیر ملکی زرمبادلہ بھیج کر گرتی معیشت کو طاقت کا انجکشن لگانے پر عمران خان انہی اوورسیزپاکستانیوں کے شکر گزار بھی رہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ غیرت بریگیڈ کے کمانڈرعمران خان نےساڑھے تین سالوں میں برآمدات کی نئی راہیوں کھولنے کیلیے کیا کیا؟خود ان کے وزیرخزانہ مان رہے ہیں کہ عمران خان کے پاس معاشی پلان ہی نہیں تھا۔
معیشت کو استحکام دینے کے لیے غیر ملکی کرنسییا ں تو برآمدات سے حاصل ہوتی ہے یا اوورسیز پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقوم سے،عمران دور میں دونوں ہی کے لیے امریکا، برطانیہ،یورپ اور ان خلیجی ممالک پر ہی انحصار رہا۔
پہلے ناں ناں کی گئی اور پھر زمینی حقائق دیکھ کر آئی ایم ایف اور امریکا کے زیر اثر خلیجی ممالک کا ہی دروازہ کھٹکایا جاتا رہا ۔ لوگوں کو حیرت ہے کہ اب دوسرا ہاتھ نام نہاد علم بغاوت بلند کرنے کے لیے کیسے بلند کیا جارہا ہے۔
حقیقت پسندی کی تقاضا ہے کہ عمران خان اوورسیز پاکستانیوں کے جذبات بھڑکانے سے پہلے سوچیں کہ ان میں سے کوئی طیش میں آکر ایسا کام نہ کردے جو وہاں رہنے والے دیگر پاکستانیوں کے لیے مصیبت کا باعث بن جائے؟
اس میں دو رائے نہیں کہ ہر ملک کو اپنے خطے کے تمام تر ممالک سے دوستانہ تعلقات رکھنے چاہیں مگر یہ تعلقات زمینی حقائق پر مبنی ہونے چاہیں۔ اس سرمایہ دارانہ دنیا میں دوستی ون وے ٹریفک نہیں، یہ کچھ دینے اور کچھ لینے کی پالیسی پر مبنی ہوتی ہے۔
سرمایہ داری نظام اس قدر جڑپکر چکا ہے کہ آمدنی نہ ہو تو ایک ہی گھر میں رہنے والے بھائی بہنوں میں اختلافات ہوجاتے ہیں، ٹھوس متبادل کے بغیر غیرت کا ٹیکہ تباہی کا شاخسانہ ہی ہوسکتا ہے کیونکہ بنی گالا کے محل میں رہنے والے عمران خان ہوں یا ان کے ارد گرد جمع موقع پرستوں کا ٹولہ، ان میں شاید ہی کسی کو دو وقت کی روٹی کی فکر ستاتی ہو!
اس خطے کے عظیم شاعر جون ایلیا نے خوب کہا تھا کہ
اب نکل آؤ اپنے اندر سے
گھر میں سامان کی ضرورت ہے
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔