Time 18 اپریل ، 2022
بلاگ

وزارت خارجہ: تپتے توے پر کون بیٹھے؟

اتحادی حکومت میں وزارتوں کی تقسیم کا فارمولہ تو طے کرلیا گیا ہے اب سوال یہ ہے کہ کس جماعت کا کون سا رہ نما کس منصب پر فائز ہوتا ہے؟

یوں تو کئی وزارتیں پُرکشش سمجھی جاتی ہیں لیکن اس بار وزارت خزانہ اور وزارت خارجہ پر سب کی نظریں ہیں۔ ہونی تو وزارت دفاع پر بھی چاہیے تھی مگر پچھلے چند برسوں میں جن شخصیات نے وزارت دفاع سنبھالی، ان کا پس منظر دیکھا جائے تو یہ سمجھنا آسان ہوجاتا ہے کہ وہ کیوں اپنی وزارت میں فعال ہی نہ ہوسکے اور یہ منصب انجوائے ہی نہ کرسکے۔

یہ طے ہے کہ اگر شہباز شریف کی جگہ میاں نوازشریف نے وزارت عظمیٰ سنبھالی ہوتی تو وزارت خزانہ اسحاق ڈار ہی کو سونپی جاتی۔ وجہ واضح ہے کہ ان جیسا ذہین اور اعداد وشمار کے کھیل پر دسترس رکھنے والا شخص ن لیگ میں اور نہیں۔ بحثیت وزیر خزانہ انہوں نے جو بجٹ پیش کیے وہ ان نام نہاد چیمپئنز سے کہیں بہتر تصور کیے گئے جن کی عمرانی دور میں قسمت کھلی تھی۔

اس وقت بجٹ پیش کرنے میں اس قدر کم وقت ہے کہ اسحاق ڈار کی فوری وطن واپسی کاامکان نہیں۔ یہ ضرور ہے کہ مفتاح اسماعیل ہوں یا کوئی اور بجٹ جوبھی بنائے گا، اسے اسحاق ڈار کی رہنمائی کی ضرورت رہے گی۔

الیکشن کے سال میں یہ اچھا بجٹ ہی ہوگا جو موجودہ حکومت کے لیے ڈھال بن سکتا ہے کیونکہ ایک طرف آئی ایم ایف کی سخت شرائط ہیں اور دوسری جانب مہنگائی کا پہلے سے موجود سیلاب۔ اس صورت حال میں مہنگائی کم ہونا تو کرشمہ ہی ہوگا، کم سے کم قیمتوں میں مزید اضافہ روکنا ہوگا، لوگ یہ برداشت نہیں کریں گے کہ پیٹرول اور ڈالر کی قیمت کسی بھی صورت بڑھے۔

ن لیگ نے وزارت خزانہ کی بَلی اپنے سر لے تو لی ہے مگر بہتر ہوگا کہ بجٹ کی تیاری میں دیگر اتحادی جماعتوں سے بھی مشورہ کرلیا جائے تاکہ الیکشن کے موقع پر کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ ان سے پوچھا ہی نہیں گیا تھا ورنہ یہ نوبت نہ آتی۔

کہا جاتا ہے کہ اگر ایک بڑی لکیر کو مٹائے بغیر چھوٹا کرنا ہو تو اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اس لکیر کے اوپر اس سے بڑی لکیر کھینچ دی جائے۔ اسی طرح بخار میں مبتلا مریض کو اگر بتایا جائے کہ اسے کینسر لاحق ہے تو وہ بخار کو بھول کر اس سے بڑی بیماری کی فکر میں مبتلا ہوجائے گا۔

ملک کو مہنگائی کے عذاب میں جھونکنے والے عمران خان نے اپنی انتخابی مہم کے لیے کچھ ایسا ہی فارمولہ چنا ہے۔ عوام کا اصل مسئلہ مہنگائی اور مناسب روزگار کا نہ ملنا ہے مگر عمران خان نے ان مسائل سے بڑی لکیر کھینچنے کے لیے امریکی سازش کا ڈھونگ رچایا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے نشانے پر اب دو وزارتیں خاص طور پرہوں گی، ایک وزارت خزانہ اور دوسری وزارت خارجہ۔ یعنی شہبازشریف، آصف زرداری اورمولانا فضل الرحمان کے لیے تضحیک آمیز الفاظ استعمال کرنا پی ٹی آئی کا وطیرہ سہی، اب توپوں کا رخ وزیر خزانہ اور وزیر خارجہ کی طرف بھی ہو گا۔

ن لیگ کا دعویٰ ہے کہ پیپلزپارٹی نے وزارت خارجہ مانگی ہے اور بلاول بھٹو زرداری یہ منصب سنبھالنے پر غور کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بلاول بھٹو ایسا کرکے خود کو مضبوط کریں گے یا نتیجہ برعکس ہوسکتا ہے؟

اپنے نانا شہید ذوالفقار علی بھٹو اور ماں شہید بے نظیر بھٹو کی طرح آکسفورڈ سے ایم اے کی تعلیم حاصل کرنے والے بلاول نے پچھلے پندرہ برس میں جس طرح خود کو سیاسی طورپر گوروم کیا ہے، اس سے واضح ہے کہ وہ وزیر خارجہ کی حیثیت سے خود کو منوا سکتے ہیں مگر کیا اسکا یہ وقت بھی ہے؟

پیپپلزپارٹی برسر اقتدار آئی ہوتی تو اس میں شک نہیں کہ بلاول بھٹو ہی وزیراعظم بنتے مگر وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ میں بلاول بھٹو کا وزیر خارجہ بننا ممکنہ طورپر کئی پیچیدگیوں کا باعث بنتا نظر آتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی وزارت سنبھالنے سے گریز کررہے ہیں اور ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ ن لیگ کی اہم لیڈر مریم نواز مرکز میں آکر کوئی وزارت سنبھالنے کا ارادہ رکھتی بھی ہیں یا نہیں؟ شاید یہ وقت ان کے ابھی ثانوی حیثیت میں سامنے آنے کا نہیں کیونکہ اس مختصر مدت کے لیے اقتدار کا حصہ بن کر مریم نوازکے سیاسی کئیریر پر کوئی سُرخاب کا پر نہیں لگ جائے گا۔ یہ اہم پتا بچا کر رکھنا چاہیے۔

وزیرخارجہ کے لیے چیلنج یہ بھی ہے کہ اسے امریکا، یورپی یونین اور خلیجی ممالک سے تعلقات میں بہتری کا مشن درپیش ہوگا، روس اور چین سے تعلقات کی سمت واضح کرنا ہوگی۔ اسی پر عمران خان کا بلا گھومے گا۔ حقیقت کے برعکس ہی سہی ،عمران خان کا دعوی ہے کہ انہیں اسی لیے نکالا گیا کہ وہ امریکا کو آنکھیں دکھا کرایشیائی طاقتوں سے قربت پیدا کررہے تھے۔

یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں لوگ زمینی حقائق پر شخصیات کے بیانیہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ اقتدار حاصل کرنے میں پی ڈی ایم کی غیرضروری تیزی عمران خان کو پہلے ہی سیاسی شہید بناچکی، رہی سہی کسر عمران خان امریکا مخالف بیانیے کا منجن بیچ کر پوری کررہے ہیں۔ ایسے میں بلاول بھٹو کا شہباز کابینہ میں وزیرخارجہ بننا دانش مندی ہوگی یا نہیں؟ یہ فیصلہ زیادہ مشکل نہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔