Time 24 اپریل ، 2022
بلاگ

نوازشریف کی واپسی، شہباز حکومت کا بڑا چیلنج

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

اقتدار  سنبھالتے ہی شہباز حکومت کو یوں تو کئی اہم چیلنجز درپیش ہیں مگر  ایک بڑا چیلنج میاں نواز شریف کی وطن واپسی کے لیے راہ ہموار کرنا بھی ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں۔

یہ درست ہے کہ نوازشریف کی غیر موجودگی میں عمران حکومت گرا کر پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے شہباز حکومت قائم کرلی ہے مگر یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ سابق صدر آصف زرداری اور میاں نواز شریف کے درمیان مسلسل رابطے اور حکمت عملی پر اتفاق اس کی بنیاد بنا اور  یہ بھی کہ شہبازشریف کو جس بنیاد پر وزارت عظمی دی گئی وہ ن لیگ کی قومی اسمبلی میں وہی نشستیں ہیں جو نوازشریف کی قیادت میں انتخابی مہم سے جیتی گئی تھیں۔

سن1988 سے اب تک جتنے بھی الیکشن لڑے گئے ہیں ان کے لیے مہم میں ن لیگ اگر مجمع اکھٹا کر پائی ہے تو وہ شہباز شریف سے کہیں زیادہ نوازشریف کی بدولت رہا ہے، ان گننت مواقعوں پر شریف برادران نے جلسوں میں ایک ساتھ شرکت کی مگر ان 35 برسوں میں شہباز شریف نےکسی ایک موقع پر بھی تنہا قیادت نہیں کی اور مجمع میں جو روح نوازشریف کی تقریروں سے نظر آئی وہ دم خم شہبازشریف کے خطابات میں نہیں تھا۔

یہ اس کے باوجود تھا کہ شہباز شریف نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کی طرح جذباتی انداز اختیار کرنے کی کوششیں کی اور قصداً ایسا انداز اپنایا کہ جس طرح فلم کے اختتام پر پردہ گرتا ہے اس طرح تقریر کے اختتام پر مائیک گرجائے۔

شریف  برادران میں کئی خصوصیات مشترک ہیں مگر  میاں شہباز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کے  لیے زیادہ قابل قبول بھی تصور کیا جاتا رہا ہے جب کہ سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے والے نوازشریف کے بارے میں لوگوں کا قوی تاثر ہے کہ وہ اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹتے، خواہ اس کے لیے حکومت ہی قربان کرنا پڑے۔

شاید یہی وجہ ہےکہ اگر نوازشریف کہیں کہ 'مجھے کیوں نکالا؟' یا 'ووٹ کو عزت دو' تو یہ بات لوگوں کے لیے کہیں زیادہ پُر اثر ہوتی ہے۔

ایک ایسے وقت میں کہ عمران خان کی پی ٹی آئی بھی 'مجھے کیوں نکالا' کی گردان کر رہی ہے اور تحریک عدم اعتماد کو اسٹیبلشمنٹ سے خراب تعلقات کا نتیجہ قرار دینےکی کوشش میں ہے، ن لیگ کو عوامی سطح پر غیر معمولی طورپر متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔

یہ کام شاید شہباز شریف سے کہیں زیادہ بہتر نوازشریف کرسکتے ہیں اوراسی لیے سابق وزیراعظم کی وطن واپسی کی راہ میں حائل رکاوٹیں ہٹانا مسلم لیگ ن کے لیے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ نوازشریف اس بار یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ آخر وہ مائنس ون فارمولے کا شکار کیوں کیےگئے؟

عام انتخابات میں جتنی تاخیر ہوگی، ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے اصل حریف عمران خان کے لیے میدان اسی قدر صاف ہوتا چلا جائےگا۔ پشاور، کراچی اور لاہور میں پی ٹی آئی کے جلسے دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کی آنکھیں کھولنےکے لیے کافی ہیں،  ویسے بھی ہمارے ہاں رِیت رہی ہے کہ مجمع اسی وقت پرجوش ہوتا ہے جب حکومت وقت پر طنز کے تیر چلائے جائیں۔

ووٹرز کو سیاسی طور پر متحرک کرنے میں پیپلز پارٹی پہلے ہی نمبر لے چکی، بلاول بھٹو کی قیادت میں پچھلے ماہ سندھ سے پنجاب تک 'عوامی مارچ' نے پیپلزپارٹی میں نئی روح پھونکی، جس سے یہ امکان پیدا ہوا ہے کہ سندھ کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی پنجاب میں بھی اپنی پوزیشن پچھلے انتخابات کے مقابلے میں کچھ بہترکر لےگی۔

اب چونکہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ سمیت پوری پی ڈی ایم عمران خان کے سابق اتحادیوں کو لے کر حکومت میں آئی ہے اس لیے انہیں تنقید کا سامنا بھی ہوگا، سیاسی رہنماؤں نے چونکہ کبھی لوگوں کو حقیقت پسندی کی جانب راغب ہی نہیں کیا، اس لیے عوام کو اس بات پر قائل کرنا مشکل ہے کہ یہ حکومت محض مختصر مدت کے لیے آئی ہے جو عمران خان کے ہاتھوں تباہ معیشت کو محض سنبھالنے کی کوشش کرسکتی ہے، اس کے پاس الٰہ دین کا چراغ نہیں کہ پلک جھپکتے ہی لوگوں کی زندگی میں نمایاں بہتری لاسکے۔

ایسے میں مسلم لیگ ن کو اپنے قائد میاں نوازشریف کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ وہ اپنے سادہ مگر مؤثرکن انداز سے لوگوں کو متحرک کرسکیں گے۔

اس میں شک نہیں کہ میاں نواز شریف وطن واپس آئے تو انہیں عمران خان کی بھرپور تنقید کا سامنا بھی ہوگا کیونکہ تین برس پہلے میاں نوازشریف طبی بنیادوں پر برطانیہ گئے تھے اور عمران حکومت لاکھ سر پٹخنے کے باوجود انہیں واپس لانے میں ناکام رہی تھی،  اب پی ٹی آئی کو یہ کہنے کا موقع ملےگا کہ بیماری باہر جانےکا بہانہ تھی۔

جس ملک میں ایک وزیراعظم کو تختہ دار پر لٹکا کر عشروں بعد اپوزیشن بھی تسلیم کرے کہ غلطی ہوگئی، وہاں سیاست کی بساط پر کوئی بھی چال چل کرخود کو محفوظ رکھنا غلط نہیں، شاید بدلتی دنیا اور اپنےتجربات کی بنیاد پر شہید بے نظیر بھٹو نے مجھے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر وہ ذوالفقار علی بھٹو کی جگہ ہوتیں تو کوئی راستہ نکالتیں۔

اگلے انتخابات میں سیاسی معرکہ سر کرنےکے لیے ن لیگ کو نوازشریف کی واپسی کا بھی راستہ نکالنا ہوگا۔ شہباز حکومت کو الیکشن کااعلان کرنے میں اتنا وقت ضرور لینا چاہیے کہ نوازشریف وطن واپس کر آکر دل کی بات کہہ سکیں اور مئی 2006 میں ہوئے میثاق جمہوریت کو آگے بڑھاتے ہوئے پیپلزپارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرسکیں تاکہ ایک دوسرے کے ووٹ کاٹنے کے بجائےمل کر مقابلہ کیا جاسکے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔