Time 26 اپریل ، 2022
بلاگ

کیا نوازشریف بھی اراکین پارلیمنٹ کےساتھ عمرہ کرینگے؟

سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اوراس دور میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا یہ معمول رہا تھا کہ وہ رمضان کا آخری عشرہ سعودی عرب ہی میں گزارتے تھے۔ فوٹو: فائل
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اوراس دور میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا یہ معمول رہا تھا کہ وہ رمضان کا آخری عشرہ سعودی عرب ہی میں گزارتے تھے۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم میاں شہباز شریف، کابینہ کے اہم اراکین اوراتحادیوں سمیت53 شخصیات اس ہفتے سعودی عرب کادورہ کرکے عمرہ کی سعادت حاصل کریں گے۔ حکومت سنبھالتے ہی شاید یہ تاریخ میں پہلی بار ہو کہ حلف اٹھاتے ہی اتنی بڑی تعداد میں حکومتی شخصیات ایک ساتھ سعودی عرب کا دورہ کررہی ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا سابق وزیراعظم نوازشریف بھی اس موقع پر سعودی عرب آکرعمرہ کی ادائیگی اور روضہ رسول ﷺپر حاضری دے سکیں گے؟

سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اوراس دور میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا یہ معمول رہا تھا کہ وہ رمضان کا آخری عشرہ سعودی عرب ہی میں گزارتے تھے، ن لیگ اپوزیشن میں ہوتی تب بھی میاں نوازشریف اور اسحاق ڈار کو اس موقع پر سعودی عرب میں اعلی پروٹوکول دیا جاتا تھا تاہم عمران حکومت میں قائم مقدمات کے سبب میاں نوازشریف اور اسحاق ڈار دونوں ہی پاسپورٹ سے محروم کردیے گئے تھے جس کے سبب وہ کئی برس سے رمضان کا آخری عشرہ مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ میں نہیں گزارسکے۔

اتحادی حکومت نے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کا پاسپورٹ اب جاری کردیا ہے جس کے بعد وزیراعظم شہبازشریف کی کابینہ میں شامل وزرا اور کئی اہم اتحادیوں نے میاں نوازشریف سے کہا ہے کہ اگر ممکن ہوسکے تو وہ بھی اس موقع پر سعودی عرب آئیں تاکہ عمران حکومت کے جانے پر مل کر شکرانہ ادا کیا جائے۔

نوازشریف نومبر سن 2019 میں لندن گئے تھے تاکہ کم سے کم چار ماہ وہاں قیام کرکے علاج کراسکیں تاہم جلد ہی دنیا کو کورونا وبا کا سامنا ہوگیا تھا، امریکا اوربرطانیہ سمیت یورپ میں بدترین لاک ڈاؤن کیا گیا صرف برطانیہ میں کورونا وائرس سے تقریبا پونے دو لاکھ اموات ہوئیں، وبا کی شدت اس قدر رہی کہ نظام زندگی حال ہی میں مکمل طورپر بحال ہوا ہے جس کے سبب میاں نوازشریف کا مکمل علاج تاحال نہیں ہوپایا۔

اس صورتحال میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کابینہ اور اتحادیوں کو انکار تو نہیں کیا تاہم یہ ضرور کہا ہے کہ وہ اپنے ڈاکٹروں سے پوچھیں گے کہ آیا ان کی صحت اس بات کی اجازت دیتی ہےکہ التوا کا شکار ضروری علاج سے پہلے وہ سعودی عرب کا یہ سفر کرنے کے قابل ہیں یا نہیں؟

سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار بھی لندن میں زیر علاج ہیں ان کا پاسپورٹ ستمبر 2018 ہی میں منسوخ کردیا گیا تھا جس کے بعد انہیں متبادل پاسپورٹ جاری ہی نہیں کیا گیا۔

یہ اس کے باوجود ہے کہ اس سال فروری میں لاہور ہائی کورٹ قرار دے چکی ہے کہ سفرکاحق عالمی سطح پر بنیادی انسانی حقوق کے زمرے میں آتا ہے، جسٹس طارق سلیم شیخ واضح کرچکے ہیں کہ یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس کے آرٹیکل 13 کے تحت ہر شخص کو ہر ریاست میں آزادی سے آنے جانے اور رہنے کا حق ہے اور یہ بھی کہ ہر شخص کو نہ صرف اپنے بلکہ کسی بھی ملک کو چھوڑنے اور اپنے وطن میں واپس آنے کا حق حاصل ہے۔

سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے پاسپورٹ کے حصول کے لیے درخواست دی ہے اور وزیراعظم شہباز شریف بھی اسحق ڈار کے پاسپورٹ کے اجرا کا حکم دے چکے ہیں تاہم اس معاملے میں تاحال پیشرفت نہیں ہوئی اس لیے یہ واضح ہے کہ اگر اسحاق ڈار کو ان کے ڈاکٹر سفر کی اجازت دے بھی دیں تو وہ ماہ رمضان کے آخری ایام میں سعودی عرب نہیں پہنچ سکیں گے۔

جہاں تک میاں نوازشریف کا تعلق ہے، کابینہ اور اتحادیوں کی خواہش اپنی جگہ، اس بات کے امکانات نہیں کہ سابق وزیراعظم اس ہفتے سعودی عرب کا دورہ کرسکیں،  ڈاکٹر چاہتے ہیں کہ کورونا وبا کے خاتمے کا فائدہ اٹھتے ہوئے میاں نوازشریف کا علاج جلد از جلد مکمل کیا جائے۔

دو برس سے التوا کا شکار یہ ضروری علاج مکمل ہوا تو میاں نوازشریف نہ صرف باآسانی سعودی عرب جاکر عمرہ ادا کرسکیں گے بلکہ ان کی وطن واپسی بھی ممکن ہوجائے گی اور انہیں فوری طور پر دوبارہ برطانیہ لوٹنے کی ضرورت نہیں رہے گی، ایسا ہوا تو میاں نوازشریف وطن آکر آئندہ انتخابی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لے سکیں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔