29 اپریل ، 2022
اسلام آباد: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہےکہ اگر معاملہ آئین یا پسے ہوئے طبقے کا ہوتو عدالتیں رات تین بجے بھی کھلیں گی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی سربراہی میں ارشد شریف کو ہراساں کرنے کےخلاف درخواست پر سماعت ہوئی جس سلسلے میں ارشد شریف کی جانب سے وکیل فیصل چوہدری پیش ہوئے۔
دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت ہر کسی کے لیے یہاں موجود ہے، آپ نے کاشف عباسی کا پروگرام دیکھا ہے؟ پروگرام میں حقائق کی تصدیق کے بغیر کیا کچھ کہا گیا، انہوں نے کہا عدالت رات کوکھلی کیوں؟ یہ عوام پرعدالت کا اعتماد اٹھانے کی کوشش کی گئی، عدالتیں رات کو 3 بجے بھی کھلیں گی اگرمعاملہ آئین یا کسی پسے ہوئے طبقےکاہو۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمار کس دیے کہ ایک بیانیہ بنا دیا گیا کہ عدالتیں کھلیں، عدالتیں کھلیں گی اور کسی کو آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیں گی، آپ لوگوں کا عدالتوں پر اعتماد ختم کررہے ہیں، اس عدالت کا بھی کہا گیاکہ چیف جسٹس عدالت پہنچ گئے، آپ چاہتے ہیں کہ عدالت فوری نوعیت کی درخواستیں نہ سنے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ عدالت نے ایک نہیں، عدالتی اوقات کارکے بعد بہت سی درخواستیں سنیں، کوئی ذمہ داری بھی ہوتی ہے، آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جارہی، سپریم کورٹ نے واضح پیغام دیا کہ آئین کےخلاف کسی اقدام کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
معزز چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سب لگے ہوئے ہیں کہ عدالتیں کھل گئیں، آپ سمجھتے ہیں کہ عدالتیں نہیں، آپ کا چینل آئین کو بہترسمجھتا ہے؟ جھوٹ کے اوپر ایک بیانیہ بنادیا گیا ہے کہ عدالتیں کھل گئیں۔
عدالت نے اے آر وائی کے رپورٹر سے سوال کیا کہ آپ کے چینل نے مسنگ پرسنز یا بلوچ اسٹوڈنٹس سے متعلق کتنے پروگرام کیے؟ اے آروائی نے مسنگ پرسنز کے لیے کتنی آواز اٹھائی جو اصل ایشو ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیاسی بیانیے کیلئے اداروں کوتباہ کررہے ہیں اور ایسا پہلی بار نہیں ہورہا، بنیادی حقوق کے لیے عدالت کھلیں گی، ان بیانیوں سے کچھ نہیں ہوگا، سپریم کورٹ کے اعلیٰ ججز سے متعلق باتیں ہوتی ہیں کہ وہ جواب نہیں دے سکتے؟ جہاں پر ہم سے غلطی ہوتی ہے ضرور بتائیں۔