Time 05 مئی ، 2022
کاروبار

رضا باقر بطورگورنر اسٹیٹ بینک معاشی مسائل کے سدباب میں کس حد تک کامیاب رہے؟

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر کی ٹرم مکمل ہوگئی ہے،  انہیں گورنر اسٹیٹ بینک کے منصب پر فائز کرنے کا مقصد ملکی معیشت کو درپیش مہنگائی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور  روپے کی بے قدری پر قابو پانا  تھا، اس حوالے سے سرسری جائزہ  لیتے ہیں کہ کیا ڈاکٹر رضا باقر بطور گورنر  ان مسائل کا سدباب کرسکے یا نہیں!

ڈاکٹر رضا باقر کے گورنر اسٹیٹ بینک بننے سے قبل بینک دولت پاکستان  معیشت کو استحکام دینے مہنگائی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ قابو کرنےکے لیے اقدامات کر رہا تھا، جنوری 2018 سے مئی 2019 تک شرح سود پانچ فیصد بڑھایا گیا اور روپے کی قدر  ایک سو دس سے ایک سو اکتالیس روپے پہنچائی گئی۔

ڈاکٹر رضا باقر نے 4 مئی 2019 کو  اسٹیٹ بینک کے گورنرکا منصب سنبھالنے کے بعد سخت فیصلوں کا سلسلہ جاری رکھا  اور دو مہینوں میں انہوں نے شرح سود مزید ڈھائی فیصد بڑھا کر سوا تیرہ فیصد کردیا اور روپے کی قدر کو انیس روپے مزید گرا کر ایک سو ساٹھ روپے تک پہنچادیا۔

سخت پالیسیوں کا سلسلہ فروری 2020  تک رہا اور پھر عالمی وبا نے حالات کو بدلا، جون 2020 تک شرح سود میں سوا چھ فیصد کمی کی گئی،  روزگار بچاؤ اور ٹرف پیکیج دیا گیا۔

ڈاکٹررضا باقر کے دور میں روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ، راست ادائیگیوں کا نظام، ڈیجیٹل بینکنگ کا فریم ورک، کم لاگت گھروں کی فنانسنگ جیسے اچھے کام ہوئے لیکن ان سے ملکی معیشت کو درپیش مہنگائی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے، روپے کی بے قدری اور زرمبادلہ ذخائر میں کمی کے مسائل ان کی مدت ملازمت ختم ہونے پر بھی برقرار ہیں۔ 

مزید خبریں :