بلاگ

سیاسی کھیل، ہدف تنقید کون بنا

ملک میں ایک حکومت فارغ کردی گئی دوسری وجود میں آگئی بڑی جدوجہد اورمشکل سے پی ڈی ایم اتحاد اس بات پر متفق ہوا کہ اتحاد کیا جائے کہ تحریک انصاف اور عمران خان کو حکومت سے نکال پھینکیں باقی معاملات وقت کے ساتھ طے کرلیں گے لیکن یہ فیصلہ کرلیا گیا کہ حکومت ن لیگ کو دی جائے اور اتحادی اس میں اپنا حصہ لے لیں ۔

اس پورے سیاسی محاذ میں مسلم لیگ ن فرنٹ پر آئی اورجمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے سب سے زیادہ متحرک کردار ادا کیا۔۔پیپلزپارٹی کے کو چئیرمین آصف علی زرداری نے اس تمام عمل میں کمال کردار ادا کیا اور خوبصورتی کے ساتھ ایک تیر سے کئی سیاسی شکار کرلئے۔

سندھ میں پیپلزپارٹی کی مضبوط حکومت قائم ہے لیکن پنجاب میں پیپلزپارٹی کو اپنے قدم جمانے میں کافی مشکلات کا سامنا تھا۔ ایسے میں عمران کی حکومت گرانے میں ساتھ دینے پر انہیں بیک کئی جگہوں پر اپنے ہدف حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔

انہوں نے پنجاب میں سیاسی انتشار کے دوران اپنی پارٹی کو مضبوط کرنا شروع کردیا اور وفاق اور پنجاب میں اہم حکومتی عہدوں پر زور ہی نہیں دیا۔۔ انہیں عمران خان کی جانب سے حکومت جانے کے بعد بھرپور قوت سے جوابی سیاسی حملوں کا اندازہ تھا اس لئے انہوں نے کچھ قدم پیچھے رہنے کی سیاست کو چن لیا۔

 آصف زرداری کو اس بات کا پتہ تھا کہ سازش اور مداخلت کے سنگین الزامات میں جو بھی حکومت تشکیل پائے گی اسے جواب دینا ہوگا۔تحریک انصاف نے مسلم لیگ ن کی حکومت تشکیل پانے کے بعد انہیں ہدف تنقید بنالیا ہے ۔۔ن لیگ اوران کے رہنماؤں کے مقدمات کو شدید تنقید کا سامنا رہا ۔۔۔ اور شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے عہدوں پر منتخب ہونے میں آخری مرحلے تک رکاوٹیں ڈالی گئیں۔

 نومنتخب کابینہ میں مقدمات میِں ملوث رہنماؤں کو اجاگر کیا گیا ،ای سی ایل سے سینکڑوں ناموں کو نکالنے، مقدمات میں تاخیر، مہنگائی میں اضافے، بجلی کے بحران جیسے معاملات پر بھی مسلم لیگ ن ہی ہدف تنقید بن رہی ہے ۔

دوسری جانب پیپلزپارٹی نے اس الزام سے بھی بری الذمہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے کہ وہ کوئی انتقامی کاروائی کرتی ہے بلکہ اس معاملے میں بھی مسلم لیگ ن اوران کےرہنماؤں کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے رکھا جارہا ہے یعنی ایک تیر سے کئی شکار۔۔۔پنجاب کی سیاسی صورت حال بڑی پیچیدہ ہے جہاں مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف اتحادی ہیں دوسری جانب مسلم لیگ ن حکومت بناچکی ہے ۔

 ایسے میں پیپلزپارٹی اپنے کارڈ بچا کر چل رہی ہے کہ پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی سیاسی قوت کو بحال کرسکے۔آصف زرداری کا یہ کہنا کہ ایک زرداری سب پر بھاری نہیں بلکہ سب سے یاری مناسب ہے۔ یہ جملہ بتا رہا ہے کہ آصف علی زرداری نے ملک میں مقتدر قوتوں سمیت تمام سیاسی اکائیوں سے رابطے بحال رکھے ہیں ۔

ایک مثال متحدہ قومی موومنٹ ہے جس نے سابقہ وفاقی حکومت سے نکل کر پی ڈی ایم کا ساتھ دیا ، تحریک انصاف کے بیس ارکان نے بھی پی ڈی ایم کی سپورٹ کی جبکہ پنجاب میں تحریک انصاف کو اکھاڑ پھینکنے کا ٹاسک بھی آصف علی زرداری نے ہی پورا کرکے دیا ۔ یہاں ایک بات بالکل واضح ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اس مختصر عرصے کی حکومت سے بہت کچھ نہ لینے کا تاثر بھی دیا اور بہت کچھ لے بھی لیا۔ اپنی سیاسی حکمت عملی سے یہ عکاسی کر رہی ہے کہ پیپلزپارٹی اپنی سیاسی قوت کو بڑھا کر آئندہ انتخابات میں واضح برتری کی خواہاں ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔