کیا ہم غلام ہیں؟

تحریک انصاف کے سربراہ دل کے پھپھولے پھوڑ کر بھی سازشی نظریے پر قائم ہیں، اس کے باوجود کہ پچھلی چند تقاریر اور صحافیوں سے بات چیت میں عمران خان واضح کرچکے ہیں کہ اداروں سے اختلاف کا سبب عثمان بزدار تھے یا پھر ادارے کے کاموں میں اپنی ٹانگ اڑانے کی کوشش ان کے آڑے آئی۔

 عمران خان کے لہجے میں بات کی جائے تو یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ ' کیا ہم غلام ہیں کہ جو آپ کہیں وہ مان لیں'؟

سوال یہ بھی ہے کہ اگر عمران خان کو جون سن 2021 ہی میں معلوم ہوگیا تھاکہ پی ٹی آئی حکومت کیخلاف سازش کی جارہی تھی تو انہیں یہ الہام کیسے ہوا کہ سازش کے پیچھے امریکا ہے؟عمران خان صاحب کو شاید یاد نہ ہو کہ پچھلے برس جون میں روس اور امریکا کے صدور نے سوئٹزرلینڈ میں تین گھنٹے ملاقات کی تھی جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں نسبتاً بہتری آئی تھی اور سفیروں کو پھر سے دارالحکومتوں میں بھیجنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

دنیا جانتی ہے کہ یوکرین کی صورتحال کو یوں تو روس تقریباً ایک عشرے سے تشویش کی نظر سے دیکھ رہا تھا مگر یہ تو کسی کے فرشتوں کو بھی نہیں پتا تھا کہ صدرپیوٹن یوکرین کیخلاف فوجی کارروائی کا 24فروری کو حکم دیدیں گے۔

مختلف ملکوں میں تعینات روسی سفارت کار اپنے صدر کے اس فیصلے کو حق بجانب اور آخری حل تو مانتے ہیں مگر جس روز یوکرین پر چڑھائی کی گئی ، ان میں سے کئی خود بھی فوجی آپریشن پر حیرت ذدہ تھے۔

اس میں شک نہیں کہ بھارت کی امریکا سے پینگھیں بڑھیں اور افغانستان کے معاملے پر پاک امریکا اختلافات ہوئے تو روس کے صدر پیوٹن نے پاکستان کو نسبتاً زیادہ اہمیت دی، شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاسوں جیسے موقعوں پر عمران خان اور صدرپیوٹن ساتھ ساتھ بیٹھے نظر بھی آئے۔ یہ بھی ہوا کہ 23 برس میں عمران خان پہلے پاکستانی وزیراعظم بنے جنہوں نے ماسکو کا دورہ کیا۔

سوال یہ ہے کہ روس نے یوکرین پرحملہ کردیا ہوتا اور یہ دورہ 23 سے 24 فروری کے بجائے عمران خان کو ہٹائے جانے سے چند روز پہلے یعنی 7 یا 8اپریل کے درمیان طے پایا ہوتا تو کیا اس دورے کو انجام دیا جاتا؟ عمران خان کے ساڑھے تین برس کے اقتدار پر معروضی نظر ڈالی جائے تو انہوں نے روس کے ساتھ ایسا اقدام نہیں کیا جس کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ مغرب کی مخالفت مول لے کر عمران خان دورہ روس ہر صورت ممکن بناتے۔ عمران خان اتنے ہی روس نواز تھے تو اپنے دور میں ایسا کوئی ٹھوس سمجھوتہ کیوں نہیں کیا کہ صدر پیوٹن اسلام آباد چلے آتے؟

شہبازحکومت امریکا کا ساتھ دیتی ہے یا نہیں یہ اپنی جگہ، تاریخی لحاظ سے دیکھیں تو اپریل 1999 میں اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف نے تین روز پرمشتمل ماسکو کا دورہ کیا تھا جس میں صدر بورس یلسن سے ملاقات کی گئی تھی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ولاد یمرپیوٹن اس وقت سکیورٹی کونسل سیکرٹری کی حیثیت سے بورس یلسن کے ساتھ تھے۔

میاں نوازشریف 25 برس میں ماسکو کا دورہ کرنے والے پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے کیونکہ نوازشریف سے پہلے 1974 میں شہید ذوالفقار علی بھٹو نے بحثیت وزیراعظم اور 1972 میں بحثیت صدر، سوویت یونین کے دورے کیے تھے۔

بھٹو جیسی شخصیت کو سولی پر لٹکا دیا جانا تو شاید ہمارے نظام پر وہ کلنک کا ٹیکہ ہے جسے مٹایا ہی نہیں جاسکتا تاہم عمران خان بتائیں گے کہ روس کا دورہ کرنے کے 6 ماہ بعد نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹے جانے اور انہیں جلاوطن کرنے کے پیچھے بھی کیا 'امریکا' ہی تھا؟ خدا کی پناہ۔

صورتحال یہ ہے کہ عمران خان اس محاورے پر عمل کررہے ہیں کہ بہو کو باتیں سنانا ہوں تو ٹیڑھی آنکھ سے بہوکو دیکھتے ہوئے بیٹی کو جی بھر کے ڈانٹ لو۔شاید لوگوں نے آئینہ دکھانا شروع کیا ہے تو عمران خان یوکرین جنگ کا مصالحہ کم کرتے ہوئے بات روس سے سستا تیل اور گندم خریدنے پر لے آئے ہیں۔

اپنے جلسوں میں عمران خان امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان سے ملاقات کرنے والے امریکی سفارت کار ڈونلڈ لو کو جتنا چاہیں کوس لیں، لوگ واقف ہیں کہ ڈونلڈ لو عشروں پہلے پشاور میں تعینات رہ چکے ہیں اس لیے ان کا پاکستان سے پرانا تعلق ہے۔ اُسی تعلق کی بنیاد پر ممکنہ طورپر انہوں نے پاک امریکا تعلقات،خطے کی صورتحال اور شاید یوکرین کے تناظر میں بھی بات کی ہو۔ اسد لو ملاقات ایسے وقت بھی ہوئی تھی جب پاکستانی سفیر کی تعیناتی کی مدت ختم ہورہی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ جب سیاستدان ملتے ہیں تو سیاست پربات ہوتی ہے، پڑھے لکھے اورمنجھے ہوئے سفارت کارآپس میں مل بیٹھیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ملکوں کے باہمی تعلقات اورعالمی صورتحال زیر بحث نہ آئے۔

یہ درست ہے کہ عمران خان کے سازشی بیانیے پر روس کی ترجمان ماریا زخاروا نے بھی کہا کہ 'امریکا اورمغربی ممالک کا دباؤ تھا کہ عمران خان روس کا دورہ نہ کریں اورجب وہ آگئے تو مطالبہ کیاگیا کہ دورہ ادھورا چھوڑ کر چلے جائیں۔جب یہ بھی نہ مانا گیا تو امریکا نے 'نافرمان' عمران خان کو سزا دینے کی ٹھانی'۔

ماریا زخاروا کا یہ بیان روس اور اس کے ہم خیال ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے کتنا ہی پرکشش ہو، خود روسی حکام بھی اس روایت پرعمل کرتے ہیں کہ جب سفارت کار کسی سے ملتا ہے تو اہم اشوز پر ایک دوسرے کی رائے جاننے کی کوشش کرتا ہے، بعض اوقات اپنی ذاتی رائے پیش کر کے مہمان یا میزبان کو اپنی علمیت بتانے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ان کے ممالک بھی معاملے کو سو فی صد اسی انداز سے دیکھتے ہوں۔ 

بات چیت کے اہم ترین نکات ایک نوٹ کی صورت میں وزارت خارجہ بھییجے جاتے ہیں جو محض رائے پر مبنی ہوتے ہیں اور جو عمران خان نے کیا ، اس کے برعکس یہ نوٹ سیاسی مقاصد کے لیے قطعاً استعمال نہیں کیے جاتے۔ عین ممکن ہے کہ خود کریملن میں بھی لوگ عمران خان کی جانب سے کاغذ لہرائے جانے پر حیران ہوں۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ عمران خان سفارتی لب ولہجے سے واقف ہی نہیں ورنہ وہ وزارت خارجہ کے ایک جونئیر افسر ڈونلڈ لو سے یہ کبھی منسوب نہ کرتے کہ لونے 'دھمکی دی کہ عمران خان کو اگر نہیں ہٹایا تو پاکستان کو نقصان پہنچے گا' اور یہ بھی کہ 'عمران خان کو ہٹادیا تو پاکستان کو معاف کردیا جائے گا'۔

ملک میں مجھ جیسے ہزاروں نہیں تو سیکڑوں صحافی ہیں جنہیں سفارت خانوں، قونصل خانوں یا سفارت کاروں کی جانب سے منعقد کی گئی تقاریب میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے جہاں انہیں سفارت کاروں کے انٹرویو یا کم سے کم ان سے بات چیت کا موقع ملتا ہے۔ ایسے تمام صحافی اس بات کوتسلیم کریں گے کہ ڈونلڈ لو سے متعلق عمران خان کے یہ الفاظ سیاسی ہیں،سفارتی نہیں۔ سفارت کار ریورس سوئنگ یا یارکر نہیں مارتے،مہذب انداز اپناتے ہیں۔

عمران خان کی یہ بات درست ہے کہ امریکا میں کہا جاتا ہے کہ 'دیر ازنو فری لنچ' یعنی مفت میں کچھ نہیں ملتا۔ مگرمفت میں کچھ پڑوسی کی دکان سے بھی نہیں ملتا۔ ممالک کے درمیان تعلقات کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر ہوتے ہیں۔ مقصد کے حصول پر نظررکھتے ہوئے یہ حکومتوں کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ قومی مفاد انہیں کس حد تک جانے کی اجازت دیتا ہے۔

جہاں تک امریکا سے تعلقات کا معاملہ ہے، یہ سمت تو لیاقت علی خان دورہی میں طے کرلی گئی تھی۔ہاں پچھلے دس سالوں میں ایشیا کی طرف کچھ دیکھا ضرور گیا مگر ایک حدتک آج کچھ بھی کہا جائے عمران دور میں بھی یہی پالیسی برقراررہی؟

جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔