Time 23 مئی ، 2022
بلاگ

اسلام آباد مارچ اور امریکا کے پٹھو

لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کرنیوالے عمران خان موجودہ حکومت کو امریکا کا پٹھو اور خود کو مغرب کیخلاف گاما پہلوان قرار دینے کی کوشش میں ہیں۔ جذباتی قوم کو امریکا سے نفرت کےہیجان میں مبتلا کر کے وزارت عظمی پھر سے حاصل کرنے کی یہ کوشش بار آورثابت ہوگی یا نہیں، اس کا انحصار تو کئی عوامل پر ہوگا۔ ایک لمحہ کے لیے فرض کریں کہ عمران خان پھر اقتدار حاصل کرلیتے ہیں تو امریکا، روس اور چین سے متعلق ان کی خارجہ پالیسی کیا ہوگی؟

تحریک عدم اعتماد کے ذریعے نکالے جانے کے موقع پر عمران خان نے اپنے دورہ روس کو کیش کرانے کی کوشش کی تھی۔ تحریک انصاف کےسربراہ نے موقف اپنایا تھا کہ ان کے خلاف سازش امریکا نے کی اور آلہ کارپی ڈی ایم بنی۔ 

لانگ مارچ کی تاریخ کے اعلان سے کچھ روز پہلے ہانڈی میں نیا مصالحہ ڈالا کہ اپنے خلاف سازش کا علم انہیں جون 2021 ہی میں ہوگیا تھا۔نام نہاد سازش کے ثبوت تو انہوں نے نہیں دیے مگر عہد عمرانیہ کے پاک امریکا تعلقات کی چند نشانیاں ایسی ضرور ہیں جن پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔انہی نشانیوں کی بنیاد پر مستقبل کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنا بھی آسان رہےگا۔

پاکستان میں تاریخ کو اس بے دریغ انداز سے قتل کیا جاتا رہا ہے کہ کسی بات کی حقیقت جاننا جوئے شیرلانے سے کم نہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ قوم پر شخصیت پسندی کا ایسا خمار چڑھایا جاتا رہا ہےکہ من پسند لیڈر کی بات سننے والا اسے پرکھنے کا تصور ہی نہیں کرتا۔ ایسے میں عمران خان جو بیانیہ بھی اختیار کریں، ایک طبقہ ایسا ہے جو انہیں امریکا سے ٹکرا جانے والے کے طور پر ہی یاد رکھے گا۔

شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ عمران خان سے پہلے بھی کئی حکمراں ایسے گزرے ہیں جنہوں نے خود کو مرد حق سمیت جانے کیا کیا کہلوایا، میڈیا کا گلادبا کر اسے خاموش رکھا اورجب ان لیڈروں کی زندگی کا چراغ گُل ہوا تو قوم پرآشکار ہوا کہ حقیقت تھی کیا۔

سوشل میڈیا نے کسی حد تک آزادی دی ہے مگر ایک جانا انجانا خوف آج بھی موجود ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ کئی شخصیات کی زندگی عشروں بعد بھی کھلی کتاب نہیں بنائی جاسکی۔

عمران دور پر نظر ڈالی جائے تواتنا ضرورہے کہ صدر منتخب ہونے کے بعد سے جوبائیڈن نے عمران خان کی جانب سے مبارکباد کا فون ریسیو کیا اورنہ ہی انہیں فون کرنا مناسب سمجھا مگر عمران خان کی جانب سے پیش سازش کا بیانیہ من وعن تسلیم کرنے میں کئی قباحتیں ہیں۔

ایک یہ کہ تحریک انصاف کے سربراہ کہتے ہیں کہ انہیں سازش کا علم جون 2021 میں ہوا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا الہام پریقین کامل کے لیے ٹھیک تین ماہ بعد یعنی ستمبر 2021 میں عمران خان نے شاہ محمود قریشی کو بطور وزیرخارجہ امریکا بھیجا تھا تاکہ وہ امریکی ہم منصب انٹونی بلنکن سے بالمشافہ ملاقات کرکے احتجاج ریکارڈ کرائیں کہ آخر بائیڈن انتظامیہ آتے ہی عمران خان کو ہٹانے پر کیوں تُل گئی تھی؟

شاہ محمود قریشی کے بقول ملاقات سے پہلے انٹونی بلنکن تین بار فون پر بھی ان سے رابطہ کرچکے تھے۔ اب قریشی صاحب ہی بہتر بتائیں گے کہ ملاقات کے دوران بلنکن کا لہجہ ویسا ہی دھمکی آمیز تھا جو ہمارے ہاں امریکا کے سابق وزیرخارجہ ہنری کیسنجر سے منسوب کیاجاتا ہے یا پھر رچرڈ آرمٹیج سے؟ قریشی صاحب کا حافظہ یقینا اتنا اچھا ضرور ہوگاکہ انہیں اپنے وہ الفاظ یاد ہوں گے جو انہوں نے انٹونی بلنکن سے ملاقات کی مسرت کا اظہار کرنے کے لیے ادا کیے تھے۔کیا چہرے پر مسکراہٹ اس لیے سجائی تھی کہ بلنکن نے انکے کان میں بتادیا تھا کہ امریکا نے نیازیوں کے مقابلے میں قریشیوں کو خلعت عطا کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے؟

یہ بھی شاید قریشی صاحب ہی بہتر بتاسکیں کہ امریکا کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین اگلے ہی ماہ اسلام آباد آکران سے کیوں ملی تھیں اور دو طرفہ تعاون کی کن باتوں پر بات کی تھی؟ کیا وہ کان میں مبینہ کہی انٹونی بلنکن کی اس بات پر مہر تصدیق ثبت کرنے آئی تھیں کہ جلد ہی پاکستان میں شاہ محمود قریشی امریکا کے پٹھو ہوں گے؟ اس صورت میں تو عمران خان کو اسلام آباد کی بجائے ملتان کی طرف لانگ مارچ کرنا چاہیے۔

امریکا اتنا ہی بڑا سازشی تھا تو عمران خان ہی بتادیں کہ ان کے دور میں آخری دنوں تک پاکستان میں امریکی منصوبے کیوں چلتے رہے،امداد کیوں وصول کی جاتی رہی؟

عمران خان کو جس ماہ یعنی جون 2021 میں اپنے خلاف امریکی سازش کا علم ہوا، اس مہینے سے ابتک پاکستان نے امریکا کی جانب سے کورونا ویکسین کی تقریبا سوا 6 کروڑمفت خوراکیں حاصل کرکے وبا سے لوگوں کی زندگیاں بچائی ہیں۔ یہ ویکسین لینے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے غیرت بریگیڈ کے کمانڈر نے سازش کیوں بھلا دی تھی؟

یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ امریکا پچھلے دوعشروں کے دوران پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے بڑے ملکوں میں سے ایک ہے۔ پاکستان کی سب سےزیادہ ایکسپورٹ امریکا کو جاتی ہیں جبکہ سب سے زیادہ چیزیں چین سے امپورٹ کی جاتی ہیں۔

صرف سن 2019 میں پاک امریکا تجارت کا حجم ساڑھے 6 ارب ڈالر رہا۔ 2018 کے مقابلے میں 5 اعشاریہ 7 فیصد اضافے کے ساتھ پاکستان کی برآمدات اعشاریہ 9 ارب ڈالر تک پہنچیں ، اس طرح تجارتی توازن ایک اعشاریہ 3 ارب ڈالر اضافے کے ساتھ پاکستان کے مفاد میں رہا۔

2019  ہی میں امریکا کی جانب سے پاکستان میں 256 ملین ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کی گئی جو کہ 2018 کے مقابلے میں 73 فیصد زیادہ تھی۔ پچھلے چند برسوں میں سوا 2 ہزار سے زائد پراسیکیوٹرز، جج، کورٹ روم ایڈمنسٹریٹر اور تفتیش کاروں کو ٹریننگ دی گئی اور امریکا ہی کے تعاون سے تقریبا پچھتر میٹرک ٹن منشیات پکڑی گئی۔ پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں کی غذا کی مد میں سن دوہزار بیس سے ابتک 2 ملین ڈالر امداد بھی رکھ لیے گئے۔

امریکا سازش ہی کررہا تھا تو اس سے مفاد کیوں حاصل کیا جاتا رہا، تعلقات بہتر بنانے کے لیے پینگیں کیوں بڑھائی جاتی رہیں؟

سازشی نظریے میں اس لیے بھی وزن نہیں کیونکہ امریکی محکمہ خارجہ کے بقول 1947 سے ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی عمومی طورپر امریکا اور مغربی ممالک سے ہم آہنگ رہی ہے۔ قومی مفاد آڑے آیا تو اونچ نیچ آئی مگر ٹرین ہچکولے کھا کرپٹڑی پر سنبھل جاتی ہے۔

اسی لیے قریشی بلنکن ملاقات ہو یا پچھلے ہفتے ہوئی بلاول بلنکن بیٹھک،دونوں کو 7 عشروں سے جاری پاک امریکا سفارتی تعلق کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔

اسی پس منظر میں امریکی وزیرخارجہ نے پاکستانی ہم منصب سے سرمایہ کاری اور تجارت بڑھانے کی بات کی، علاقائی امن، انسداد دہشتگردی، افغانستان میں استحکام اور یوکرین کے معاملے پر پاکستان کا تعاون اجاگر کیا۔

بے شک واشنگٹن چاہتا ہے کہ سفارتی لحاظ سے اسکے قریب ممالک یوکرین پر چڑھائی کی مذمت اور روس سے جنگ روکنے کا مطالبہ کریں۔ یہ بھی فطری عمل ہے کہ ماسکو کی خواہش ہوگی کہ دنیا اس کا یہ موقف مان لے کہ یوکرین کیخلاف جنگ اس لیے شروع کی گئی تاکہ روس کیخلاف وہاں سے بڑھتا ناسور ختم کیا جائے۔

بلاول بھٹو کی انٹونی بلنکن سے ملاقات پر تنقید کرنے والے عمران خان کے دور میں جب یوکرین جنگ کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھایا گیا تھا تو کسی بھی فریق کا ساتھ دینے کے بجائے ایبسٹین کرنے کو ترجیع دی گئی تھی، نیوٹرل کی تعریف تو عمران خان سے بہتر کسی اور نے آج تک نہیں کی تو پھرقوم کو غیرت کے ٹیکوں پرٹیکہ لگانے والے خان صاحب نے یوکرین پر ٹھوس موقف کیوں نہیں اپنایا تھا؟ کیا ٹانگیں کانپی تھیں یا درجہ اس سےبھی بڑھ گیا تھا اور کانپیں ٹانگ گئی تھیں؟

حکومت میں تھے تو مجبوری آڑے آگئی ہوگی، اقتدار سے باہر آکر بھی زنجیریں ٹوٹی ہیں یا نہیں؟ کتنا ہی اچھا ہو کہ کسی جلسے میں خان صاحب اچھی طرح روشنی ڈال دیں کہ انکے دور میں امداد یوکرین کیوں بھیجی گئی، آخر اس جنگ پر 'عمرانیات' کہتی کیا ہے؟بین بین باتوں کی بجائے دو ٹوک انداز میں واضح کردیں کہ دوبارہ وزیراعظم بنے تو امریکا اور روس کے معاملے پر کیا وہ 'نیوٹرل' رہیں گے؟

پاکستان کا متفقہ طورپر منظورآئین لکھنے والے مدبرسیاستدان اورکہنہ مشق وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے برسوں پہلے جیونیوز کے ایک پروگرام میں حقائق سامنے لانے کی بات پر کہا تھا کہ 'سچ بتا دوں توآپ کے سر کے بال کھڑے ہوجائیں گے۔'

عمران خان کے لیے بھی بہتر ہوگا کہ وہ خارجہ پالیسی جیسے حساس معاملے پر لب کشائی کے بجائے اسے انہی پر چھوڑ دیں جنہوں نے اپنی زندگیاں سازش کی مالا جپنے میں نہیں، سفارتکاری کا فن سمجھنے اور مہارت سے استعمال کرنے میں گزاری ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔