Time 27 مئی ، 2022
بلاگ

عمران خان کی پشاور سے اسلام آباد اور پھر پشاور آمد کا احوال

فوٹو: عمران خان انسٹاگرام
فوٹو: عمران خان انسٹاگرام

خیبر پختونخوا کے قافلے چئیرمین تحریک انصاف اور سابق وزیراعظم عمران خان کے حکم پر پشاور سے روانہ ہوئے۔ قافلے تقریباً 9 سے 12 بجے کے درمیان پشاور ٹول پلازہ سے براستہ موٹروے ایم ون اسلام آباد کی جانب روانہ ہوئے۔

خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع سے سیکڑوں کارکنان سابق گورنر شاہ فرمان و سابق وفاقی و صوبائی وزراء کی سربراہی میں پشاور اسلام آباد موٹروے کے ذریعے مردان ولی انٹرچینج پہنچے۔

پی ٹی آئی کے حقیقی آزادی مارچ میں شامل گاڑیوں نے ٹول ٹیکس ادا نہیں کیا اس دوران ٹول پلازا کے ملازمین محض قافلے کے شرکاء کو دیکھتے اور شاید گاڑیوں کو گنتے رہے۔

چئیرمین تحریک انصاف عمران خان حقیقی آزادی مارچ کی قیادت کرنے وزیراعلی محمود خان، شہباز گل و دیگر کے ہمراہ مرادن کے ولی انٹرچینج کے قریب سرکاری ہیلی کاپٹر سے مین موٹروے پر اترے۔

ہیلی کاپٹر اترتے ہی کارکنان ان کے ارد گرد جمع ہوئے اور بہت قریب آنے پر انہیں منع کرنے کی تلقین کرتے رہے۔کارکنان نے ہیلی کاپٹر اور عمران خان کی آمد پر موبائل سے فوٹیج بنانی شروع کی اور ان کے ساتھ خوب سیلفیاں لیں۔

بعد ازاں عمران خان ہیلی کاپٹر سے اتر کر موٹرکار گاڑی میں سوار ہوئے اور صوابی کی جانب روانہ ہونےکو تھے کہ پارٹی کارکنان عمران خان کے گاڑی کے سامنے آگئے جس کئ وجہ سے سابق وزیر اعظم کو گاڑی سے اترنا پڑا،گاڑی سےاترتے ہی وہ اپنے خصوصی کنٹینر میں داخل ہوئے۔

تاہم تھوڑی دیر بعد کنٹینر پر چڑھنے ہوتے ہوئے کارکنان کی طرف ہاتھ ہلایا اور خطاب کیے بغیر قافلہ روانہ ہوا اجبکہ صوابی انٹرچینچ کے قریب پہنچنے پر عمران خان نے مختصر خطاب کیا اور کارکنان کو ڈی چوک کی جانب بڑھنے کی ہدایت کی۔ 

خیبرپختونخوا کی حدود میں مارچ کے شرکاء کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں تھی بلکہ سرکاری گاڑیوں میں سرکاری اہلکار و پولیس جوان مارچ کے ساتھ رواں دواں تھے۔ تاہم صوابی میں دریائے سندھ پل پر پہلی رکاوٹ ڈالی گئی تھی۔ مارچ شرکاء کے ساتھ روڈ سے رکاوٹیں ہٹانے کے لیے ڈرل مشینیں و دیگر آلات موجود تھے اس لیے موٹروے پر رکھے گئے کنٹینر کو کرین کی مدد سے ہٹاکر روڈ کو کلئیر کیا گیا ۔ پہلی رکاوٹ ہٹانے کے لیے قافلہ تقریباً ایک گھنٹہ رکا ہوا تھا اور عمران خان کا کنٹینر رکاوٹیں ہٹانے والے کرین و کارکنان سے دو سے تین کلومیٹر پیچھے قافلے کی قیادت کر رہے تھے۔

دریائے سندھ پل رکاوٹ کے بعد برہان انٹرچینج کے قریب کنٹینر لگا کر روڈ مکمل بند تھا۔ تاہم عمران خان کنٹینر کے اوپر آئے ایک ویڈیو پیغام ریکارڈ کراکر کنٹینر کے اندر چلے گئے،اس دوران مارچ شرکاء کے لیے راستہ کھولنے والی ٹیم پر پنجاب پولیس کی جانب سے آنسوگیس کے شیل پھینکے گئے مگر کرین عملہ کنٹینر ہٹانے اور روڈ کھولنے میں کامیاب ہوا۔ جس کے بعد کارکنان نے قریبی درختوں کو توڑ کر ڈنڈے بنائے اور جھاڑیوں کو آگ لگائی ۔ 

کارکنان کا کہنا تھا کہ انہوں نے آگ اس لیے لگائی کہ اس سے آنسو گیس کی شدت ختم ہوجاتی ہے جبکہ دوسری جانب پولیس پیچھے ہٹ گئی اور آزادی مارچ کے شرکاء کو اس آخری رکاوٹ ختم کرنے میں کامیابی ملی۔

لہٰذا قافلہ برہان انٹرچینج سے آگے ہکلہ، فتح جنگ سےہوتا ہوا تقریباً آدھی رات اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوا۔ اداروں کے اہلکاروں کے مطابق اسلام اباد میں داخل ہوتے وقت آزادی مارچ میں 10 سے 12 ہزار کارکنان بشمول 150 تک خواتین شریک تھیں۔

اسلام اباد میں سری نگر ہائی وے پر ٹریفک جام تھا اور صبح ہونے تک یہ قافلہ ڈی چوک کی جانب رواں دواں تھا۔ ڈی چوک میں پہلے سے پہنچے پارٹی کارکنان پر وقتاً فوقتاً پولیس کی جانب سے شیلنگ ہو رہی تھی۔ 

25 مئی دن 10 بجے سے روانہ پشاور کا یہ قافلہ 26 مئی صبح ڈی چوک کے قریب پہنچا۔ اسلام اباد پہنچنے پر بیشتر کارکنان عمران خان کی آخری خطاب سننے سے محروم ہوئے اور شاید رشتہ داروں کے ہاں یا ہوٹلوں اور مساجد میں آرام فرما رہے تھے تاہم چئیرمین تحریک انصاف  نے 3 سے 4 ہزار کارکنان سے خطاب کیا۔

عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو 6 دن کا آلٹی میٹم دیکر کہا کہ اگر حکومت مستعفی نہ ہوئی تو وہ دوبارہ ڈی چوک آئیں گے۔ 

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون حصوصی برائے اطلاعات بیر سٹر محمد علی سیف کے مطابق سابق وزیراعظم وچئیرمین تحریک انصاف عمران خان حقیقی آزادی مارچ میں شرکت کے بعد واپس پشاور پہنچے ان کے ہمراہ شہباز گل اور دیگر پارٹی رہنما بھی موجود تھے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔