01 جون ، 2022
ویسے تو پاکستان کے صدور اور وزرائے اعظم اور اسی طرح ترکی کے صدور اور وزرائے اعظم (اب ترکی میں صدارتی نظام کی وجہ وزیراعظم کا عہدہ نہیں ہے ) بڑی باقاعدگی سے ایک دوسرے ملک کا دورہ کرتے رہے ہیں تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو فروغ دیا جاسکے۔ترکی میں تو گزشتہ 20برسوں سے صدر ایردوان کی حکومت برسر اقتدار ہے جبکہ پاکستان میں سیاسی حالات تبدیل ہوتے رہے ہیں کبھی پیپلز پارٹی برسر اقتدار رہی ہے توکبھی مسلم لیگ نون اور پھر تحریک انصاف صدر ایردوان کے تمام ہی پاکستانی سیاسی رہنمائوں سے بڑے قریبی تعلقات رہے ہیں۔
البتہ صدر ایردوان کے پاکستان کے موجودہ وزیراعظم شہباز شریف سے جتنے گہرے اور قریبی مراسم ہیں شاید ہی کسی دیگر پاکستانی سیاستدان کے ساتھ ہوں۔ راقم یہ بات اتنے وثوق سے اس لیے کہہ رہا ہے کہ راقم کوصدر ایردوان کے دور میں اردو مترجم کی حیثیت سے سب کے ساتھ کام کرنے کا موقع میسر آیا ہے۔
صدر ایردوان اُس وقت سے شہباز شریف کو جانتے ہیں جب وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے اور اس وقت وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم تھی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے شہباز شریف نے صدر ایردوان کا اعتماد حاصل کیا اور پھر اس قربت کے نتیجے میں انہوں نے پنجاب کی حالت بدلنے کا فیصلہ کیا اور کئی ایک ترک فرموں کو پنجاب میں سرمایہ کاری اور کام کرنے کے مواقع فراہم کئے اور اوپر تلے ترکی کا دورہ کرتے ہوئے کئی ایک تعاون کے معاہدوں پر دستخط کرتے ہوئے صدر ایردوان کیلئے بہت قریبی پاکستانی رہنما بن گئے اور ان قریبی مراسم ہی کے نتیجے میں صدر ایردوان نے اپنی بیٹی کی شادی پر شہباز شریف کے بڑے بھائی اور اس وقت کے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کو گواہ کی حیثیت سے ترکی مدعو کیا۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور میں بھی اگرچہ ترکی اور پاکستان کے تعلقات عام ڈگر پر چلتے رہے اور تین نومبر 2019کو وزیر اعظم عمران خان دو روزہ دورہ ترکی پر تشریف لائے اور سب سے پہلے قونیا میں مولانا جلال الدین رومی کے مزا ر پر حاضری دینے کے بعد اگلے روز صدر رجب ایردوان سے تفصیلی ملاقات کی۔ اس سے قبل دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے مختلف سمجھوتوں پر دستخط کیے گئے۔
اسی دوران پاکستان، ترکی اور ملائیشیا تینوں نے عالمِ اسلام کی آواز بننے کے لیے ایک مشترکہ ٹی وی چینل تشکیل دینے کا فیصلہ کیا لیکن کوالالمپور سمٹ میں ایک عرب ملک کےدبائو کے نتیجے میں عمران خان نے عین وقت پر شرکت سے انکار کر دیا جس پر ترک صدر ایردوان نے ناگواری کا اظہار کیا تاہم دونوں ممالک کے تعلقات معمول کے مطابق جاری رہے اور پھر 13 فروری 2020 کوصدر ایردوان نے وزیراعظم عمران خان کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کیا اور تعاون کی نئی راہ ہموار ہوئی۔ صدر ایردوان کے پاکستان کی پارلیمنٹ میں خطاب کا ترجمہ کرنے کا اعزاز بھی راقم کو نصیب ہوا۔ نومبر 2021میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے دورہ ترکی کا پروگرام مرتب کیا گیا تھا لیکن آخری لمحوں میں دورے کو منسوخ کردیا گیا اور پھر یہ دورہ دو تین بار مسلسل منسوخ کیا جاتا رہا، شاید یہ دورہ وزیراعظم کی حیثیت سےصدر ایردوان کے دوستِ خاص شہباز شریف کی قسمت میں لکھا ہوا تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف ان تعلقات کو بلندیوں پر لے جانے کی دسترس رکھتے ہیں کیونکہ وہ سچے ترک دوست ہیں اور صدر ایردوان کی ان کو مکمل تائید حاصل ہے۔شہباز شریف کے اس دورے سے پاکستان اور ترکی کے درمیان شاندار روایتی اور تاریخی تعلقات کو مزید بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف کی ترک صدر ایردوان سے ون آن ون ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے وفود کے درمیان مذاکرات ہوں گے جس میں مختلف شعبوں خصوصا دو طرفہ تجارت اور دفاع کے شعبے میں تعاون کو مزید مستحکم کرنے پر بات چیت ہو گی۔
یاد رہے ترکی اور پاکستان کے درمیان پہلی بار تجارتی حجم ایک بلین ڈالر کی حد عبور کرچکا ہے اور اسے مزید بہتر بنانے پر غور و غوض کیا جائے گا۔ پاکستان اور ترکی کے درمیان گزشتہ کئی سال سے آزادا نہ تجارت کے معاہدے پر بھی بات چیت جاری ہے، اس بار اسےفائنل شکل دیے جانے کی قوی امید ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف ڈوبتی ہوئی پاکستانی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے سیاحت کے شعبے کو فروغ دینے اور اس ضمن میں ترکی کے سیاحتی ماڈل کو پاکستان میں اپنانے کے بارے میں بات چیت کرنے کے علاوہ ترک حکام سے عالمی اور علاقائی امور پر بھی تبادلہ خیال کریں گے جس میں خاص طور پر پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان کی صورتِ حال اور ترکی کے ہمسایہ ملک شام میں قیام امن کے علاوہ یوکرین کی صورتِ حال پر بھی غور کیا جائے گا۔ بعد میں مشترکہ پریس کانفرنس اور عشائیہ کا اہتمام کیا جائے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف ترک میڈیا کو بھی انفرادی انٹرویو دیں گے۔وزیراعظم شہباز شریف کے اس بار دورہ ترکی کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تزویراتی تعاون کونسل کے اجلاس کی توقع نہیں ہے تاہم دو ماہ بعد وزیر اعظم شہباز شریف کے دوبارہ دورۂ ترکی میںاس اجلاس کو منعقد کرنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک میاں شہباز شریف بر سر اقتدار ہیں وہ ترکی کا اوپرتلے دورہ کرتے رہیں گے اور پاکستان کیلئے ترکی کے ذریعے ترقی کے دروازے پوری طرح کھولنے کی کوشش کریں گے۔ جیسا کہ عرض کرچکا ہوں کہ صدر ایردوان کو ان پر مکمل اعتماد اور بھروسہ ہے اور اسی وجہ سے وہ ترکی سے وہ کچھ حاصل کرلیں گےجو دیگر رہنما حاصل نہیں کرسکے کیونکہ ترکی میں شہباز کی پرواز ہمیشہ بلندیوں کی جانب رہی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔