05 جون ، 2022
سیاسی جماعتوں کی اقتدار کے لیے جنگ خوفناک دور سے گزررہی ہے، جانے انجام کیا ہو؟ البتہ ایک بات واضح ہے کہ سویلین قوتیں اپنے باہم تضادات کے باعث سویلین بالادستی کی خواہش سے بھی دست بردار ہوگئی ہیں۔ ایک فریق اقتدار میں واپسی کے لیے فوج کی حمایت چاہتا ہے۔
دوسرا فریق اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی مدد کا طلبگار ہے۔ سیاسی خلفشار میں محاذ آرائی کے بیہودہ بیانیوں کے باعث پاکستان کو درپیش کثیر الجہتی بحران سے سبھی کی توجہ ہٹ گئی ہے اور پاکستان کے مستقبل کی کسی کو فکر نہیں۔ شہباز حکومت تو فقط عمران حکومت کے چھوڑے ہوئے مالی و مالیاتی ملبے کو کم کرنے کی کوششوں کی بڑی سیاسی قیمت ادا کررہی ہے، جبکہ عمران خان سیاسی فساد کو بڑھاتے ہوئے معاشی دیوالیہ پن سے بچنے کی کوششوں کو ناکام کرنے پر تلے ہیں۔ جب معاشی ایمرجنسی ہو تو کوئی سیاسی آگ لگا کر ملک کو تباہی کے سوا کس جانب دھکیل رہا ہے؟
موجودہ بحران کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ مقتدر طبقات نہ صرف اپنے باہم تضادات کو حل کرنے کے قابل نہیں بلکہ اپنے اپنے مفادات میں طاقت کے آئینی اداروں سے باہر ہوتے جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں جاری سوموٹو کیس میں ایگزٹ کنٹرول لسٹ کے رولز میں تبدیلی کا معاملہ ہو یا پھر ہائی پروفائل کیسز میں انتظامی مداخلت کے خلاف عدالتی مداخلت اور ایک مقامی عدالت میں وزیر اعظم اور ان کے چیف منسٹر صاحبزادے کی عبوری ضمانت موجودہ حکومت بیک جنبش قلم فارغ ہوسکتی ہے۔
عدالتِ عالیہ کا ایکٹوازم پھر سے 2017ء کے ایکٹوازم کی طرف جاتا نظر آرہا ہے اور اصرار یہ ہے کہ انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت بھی نہیں کرنا چاہ رہے۔ پاک فوج کی سیاسی نیوٹریلٹی یا غیر جانبداری ریاست کے آئینی کردار پر دلالت کرتی ہے لیکن یہ ایسی غیر سیاسی بھی نہیں۔ نیوٹریلٹی کے ہاتھوں عمران حکومت فارغ ہوئی تو دوسری حکومت اسی کے باعث عدم استحکام کا شکار ہوسکتی ہے۔ آخری مصالحت کنندہ کے طور پر اسٹیبلشمنٹ اپنے دست و بازو پھیلارہی ہے۔ کمزور سیاسی جتھہ بندیوں اور زیادہ ترقی یافتہ اور مضبوط آہنی ڈھانچے کے مابین تضاد میں سول ملٹری تعلقات میں چھائونی مزید حاوی ہوگئی ہے۔
اب سول بیوروکریسی میں ترقی و تبادلے، تنزلی و بحالی اور عدلیہ میں ججوں کا انتخاب بھی پاکستان کی مایہ ناز فوجی خفیہ ایجنسی کے حوالے کردئیے گئے ہیں اور سویلین خفیہ ایجنسی فارغ ہوگئی ہے۔ تین پاور سنٹرز میں منتخب حکومت اور پارلیمنٹ ثانوی پوزیشن میں چلی گئی ہے جبکہ حکمرانی کا تمام تر بوجھ بشمول بڑھتا ہوا عسکری خرچہ حکومت کے سر پر ہے۔ بھلے یہ تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات ہوں، سلامتی کے بڑے فیصلے اور خارجہ امور، سویلین حکومت محض ایک کٹھ پتلی ہے۔ ریاست کے تینوں ستونوں کے مابین تضادات ہمارے پورے ریاستی سسٹم کے بحران کو ظاہر کرتے ہیں۔
سہ طرفہ آئینی اختیارات کے برعکس یہ ایک ایسا ہائبرڈ نظام ہے جس میں وقتی طور پر اپنے اندرونی بحران کو حل کرنے کی نہ صرف صلاحیت نہیں بلکہ طاقت کا اصول اس بحران کو مزید گھمبیر بناتا چلا جاتا ہے۔ پورا ریاستی نظام اسی آہنی ڈھانچے کے غلبے میں ہے جس کے بل پر مملکت خداداد کا کاروبار چلتا ہے۔ اس سلامتی کی ریاست کا انحصار اس پر ہے کہ یہ اندرونی طور پر زیادہ تر ذرائع سمیٹے اور بیرونی طور پر ایک موکل ریاست بن کر کبھی ایک اورکبھی دوسری سپر پاور کی باجگزار بن جائے یا پھر دو سپر پاورز کے بیچ جاری رسہ کشی میں پھنس کے رہ جائے۔
یہ تو تھا ریاستی اداروں کے اندرونی تضادات کا بحران۔ اب آتے ہیں مقتدر طبقات کی کشمکش کی جانب۔ ایک دست نگر، کرایہ خور، مفت برسرمایہ داری میں ایک طرف سرمایہ دار طبقہ ہے جو مختلف کارٹلز اور مافیاز کی صورت میں پاکستان کی پیداواری قوتوں کی ترقی کے لیے ہر طرح کی مراعات اور سبسڈیز کا طلبگار ہے جس کے تجارتی اور اسٹیٹ بزنس کے حصے کسی ویلیومیں اضافہ نہیں کرتے، سوائے کنزیومر ازم اور امرا کی نمائشی بودو باد کے۔ دوسری طرف زرعی اشرافیہ یا زمیندار ہیں جونہایت نکھٹو اور سب سے بڑے مفت خور اور غیر معاشی جبر سے زرعی معاشرے کو جکڑے ہوئے ہیں۔
یہ نہ ٹیکس دیتے ہیں، نہ ملک کی ترقی میں کوئی حصہ بڑھاتے ہیں۔ تیسری طرف مڈل کلاس کے وسیع حصے ہیں جو زیادہ تر پڑھے لکھے جاہل ہیں اور وہ مختلف طرح کے انتہا پسندانہ، خود پسندانہ اور جاہلانہ بیانیوں کی سماجی بنیاد ہیں۔ ان کا ریاستی تصور نظریاتی، معاشی تصور یوٹو پیائی اور سماجی تصور رجعت پسندانہ ہے۔ سب سے بڑھ کر جو تضاد اس ملک کو کھائے جارہا ہے وہ ہے ایک نحیف و دست نگر اور قرض خورمعاشی بنیاد پر ایک مفت خور ریاست کی بلند و بالا ریاست کا سپر ڈھانچہ۔ اس تضاد کے ہاتھوں کمزور معاشی بنیاد دن بدن ناپائیدار ہوتی جارہی ہے، اس کے باوجود ریاست کا بالائی ڈھانچہ ہے کہ پھیلتا چلا جاتا رہاہے۔ کوئی اس پر انگشت بدنداں ہو تو ملک دشمن اور نہ جانے کیا کیا۔ یہ کیسا آزاد ملک ہے جس کی گلیاں بھی بیرونی کمپنیاں صاف کریں، جس کی توانائی، پانی اور بجلی کی فراہمی بھی وہی کریں۔
اب تو تمام تر معاشی منصوبہ بندی بھی آئی ایم ایف کے حوالے ہے۔ اور اس پر سابق وزیرِ خزانہ شوکت ترین اور موجودہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل میں مناظرے صرف سیاسی ضرورتوں کے لیے ہیں جبکہ یہ دونوں ایک ہی طرح کی نیولبرل اکنامکس کے مبلغ ہیں۔ شوکت ترین نے آئی ایم ایف سے جومعاہدہ کیا،وہ بیچارے مفتاح اسماعیل کے گلے پڑگیا۔ وہ کریں تو کیا ان کی اکانومیٹرکس کی سٹی کہیں گم ہوتی نظر آرہی ہے۔ پاکستان جس کثیر الجہتی بحران کی لپیٹ میں ہے اس سے نکلنے کی کوئی راہ حکمران طبقوں کو نہیں سوجھ رہی۔ ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کو موردِ الزام ٹھہرائے گی اور ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت سے زیادہ غیر مستحکم ہوگی۔
ایسے میں محنت کش عوام جائیں تو کہاں جائیں کہ مہنگائی، افراط زر اور معاشی بحران کا زیادہ تر بوجھ ان پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اگر حکومت 40 ہزار روپے تک آمدنی والے لوگوں کو خود امدادی رقم کا مستحق گردان رہی ہے تو کم از کم اجرت اور تنخواہ چالیس ہزار روپے کیوں مقرر نہیں کرتی؟ کیا 20 فیصد مہنگائی کی شرح والے ملک میں چار ہزار روپے کے الائونس سے کوئی فرق پڑتا ہے؟ اب جبکہ چار برس میں روپے کی قدر آدھی رہ گئی ہے تو اجرت اور تنخواہوں میں اضافہ کم از کم 50 فیصد تو بنتا ہے۔ مگر ایک ہی طرح کے امرا کی جماعتوں کے ہوتے ہوئے، غریبوں کا پرسان حال کون ہو؟
کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینہ غم دل
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔