06 جون ، 2022
پاکستان میں اس وقت جو حالات ہیں، وہ کسی تحریک، کیفیتی تبدیلی کے لئے سازگار ہیں۔ میں نے انقلاب کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ اس کی جگہ کیفیتی تبدیلی کے الفاظ استعمال کئے ہیں کیونکہ انقلاب کا مفہوم وسیع ہے اور برصغیر پاک و ہند کی سرزمین نے وسیع تر مفہوم والا انقلاب ابھی تک نہیں دیکھا اور نہ ہی اس خطے کے لوگوں کا مزاج اس قدر جارحانہ ہے، جو انقلاب یا مکمل کایا پلٹ کے لئے ضروری ہے۔
اس وقت لوگوں میں پائی جانے والی سیاسی بے چینی ایک تحریک میں ڈھل رہی ہے اور تحریک انصاف کے سربراہ و سابق وزیر اعظم عمران خان کو حالات نے بوجوہ اس تحریک کی قیادت کے لئے آگے لاکھڑا کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس تحریک کے اثرات کیا ہوتے ہیں۔
آج حالات یہ ہیں کہ پاکستان کے عوام کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور مشکلات نے انہیں گھروں سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ عمران خان جب حکومت میں تھے تو لوگ اس ابھرتی ہوئی تحریک کی قیادت کےلئے پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ساتھ بعض مذہبی جماعتوں کی طرف دیکھ رہے تھے کیونکہ عمران خان کی حکومت کی خراب کارکردگی سے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا تھا۔
مہنگائی کے خلاف بلاول بھٹو زرداری نے جو پرامن لانگ مارچ کیا، اس کے بہت گہرے سیاسی اثرات مرتب ہوئے اور میں سمجھتا ہوں کہ ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ والی قوتوں نے یہ محسوس کیا ہو گا کہ تحریک کی قیادت ایک ایسی سیاسی جماعت کے ہاتھ میں جا سکتی ہے، جو تحریک کو درست سمت اور آگے کی طرف لے جا سکتی ہے۔ شاید اسی لانگ مارچ کے اثرات ہیں کہ ان قوتوں نے اس تحریک کی قیادت تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہو یا خود پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں نے مستقبل کی حکمت عملی کے تحت حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عمران حکومت کو گرانے کا خود فیصلہ کیا ہو۔
بہرحال عمران حکومت تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ ختم ہو گئی اور اب عمران خان عوامی بے چینی سے ابھرتی ہوئی تحریک کی قیادت کیلئے اکیلے سب کے سامنے کھڑے ہیں۔ یہ سوال کہ تحریک کیا رخ اختیار کرے گی اور اسکے اثرات کیا ہونگے ؟ اس کا انحصار آئندہ عام انتخابات کے جلد یا بدیر ہونے پر ہے۔ اگر عام انتخابات کا فوری انعقاد ہو جاتا ہے تو یہ تحریک وقتی طور پر موثر ہو جائیگی۔
وطن عزیز میں کئی بڑی سیاسی تحریکیں چلیں اور عوامی حقوق اور جمہوریت کے لئے پیش رفت کے حوالے سے ان تحریکوں کے مثبت اور منفی اثرات مرتب ہوئے۔ ان اثرات کو آج تک قوم بھگت رہی ہے۔ میں یہاں صرف دو تین سیاسی تحریکوں کا ذکر کروں گا۔ قیام پاکستان کے بعد سب سے بڑی سیاسی تحریک کراچی میں 1954 ء میں چلنے والی طلباتحریک تھی، جس نے اپنے بطن سے کئی تحریکوں کو جنم دیا۔ اس کے بہت مثبت اثرات تھے۔ اس تحریک کے تسلسل میں کئی تحریکیں چلیں اور وہ پھر ایک تحریک بن گئی، جس نے پہلے فوجی آمر ایوب خان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔
دوسری بڑی تحریک ذوالفقار رعلی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد ( پی این اے ) کی تحریک تھی۔ یہ تحریک اس حوالے سے تو کامیاب رہی کہ اس کی آڑ میں ایک آمرنے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور بعد ازاں بھٹو صاحب کو تختہ دار پر لٹکا دیا اور بظاہر تحریک کا مقصد بھی جمہوریت کی بحالی ہی تھا مگر آخر میں یہ تحریک مقصد سے ہٹ گئی۔
اس تحریک کے پاکستان کے عوام کے بنیادی اور جمہوری حقوق کی جدوجہد پر انتہائی منفی اثراتب مرتب ہوئے۔ اس تحریک کی لائی گئی تباہی سے ہم ابھی تک نہیں نکل سکے۔ پی این اے کی تحریک کے کچھ عرصے بعد ہی ایک اور آمر کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت ( ایم آر ڈی ) شروع ہوئی جس کے قائدین میں میں بھی شامل تھا۔ اس تحریک کو دبانے اور کچلنے کے لئے ریاست کے تمام وسائل استعمال کئے گئے۔
اس کے باوجود لوگ قربانی کے جذبے اور کمٹ منٹ کے ساتھ باہر نکلے اور مارشل لاء کی مخالفت کی۔ اس تحریک میں اگرچہ لوگوں کے بڑے اجتماعات نہیں ہوتےتھے۔ چند لوگ اچانک شہروں کے چوک پر نمودار ہو کر بینرز کھولتے اور نعرے لگاتے۔ پھر انہیں پولیس گرفتار کر لیتی۔ اس تحریک نے پاکستانی معاشرے کو عظیم مقصد کے لئے قربانی، پرامن جدوجہد، جمہوری اور ترقی پسندانہ اقدار سے مالال کیا۔
پی این اے کی تحریک نے پاکستان کے عوام اور پاکستانی معاشرےکو جس قدر پیچھے دھکیلا تھا، ایم آر ڈی کی تحریک نے اس سے کئی گناہ بڑی جست آگے کی طرف لگائی۔ اگر کوئی پوچھے کہ پاکستانی قوم کی عظمت کی دلیل کیا ہے تو میں کہوں گا کہ ایم آرڈی کی تحریک۔
تحریکوں کے اثرات کی ان دو تین مثالوں کے بعد پاکستان کے عوام کی اس تحریک کے کیا اثرات ہوں گے، جس کی قیادت اس وقت عمران خان کر رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام کی تحریک یقیناً ان قوتوں کے خلاف ہے، جنہوں نے انہیں ا س حال میں پہنچایا ہے۔ عمران خان جانتے ہیں کہ وہ قوتیں صرف عمران خان کی مخالف سیاسی جماعتیں یا رہنما نہیں ہیں۔ اصل قوتیں کوئی اور ہیں۔
پاکستان اور اس کے عوام کو اس حال تک امریکہ اور اس کی اتحادی طاقتوں، پاکستان میں ان عالمی طاقتوں کے ایجنڈوں کی تکمیل کرنے والی قوتیں اور اس ملک کی اشرافیہ نے پہنچایا۔ پاکستان کو بیرونی قرضوں اور ناقابل برداشت دفاعی اخراجات کے ذریعہ جکڑ دیا گیا ہے۔ صرف مخالف سیاسی قوتوں کو گالی دے کر یا امریکہ کو للکار کر ایک مخصوص نسل کو تو متاثر کیا جا سکتا ہے لیکن تحریک کو درست سمت پر نہیں ڈالا جا سکتا اور نہ ہی تحریک کے اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ تحریکیں جذباتی فیصلوں سے نہیں چلتیں۔ کبھی 6 دن کا الٹی میٹم دینا اور پھر الٹی میٹم واپس لے لینا، ساری قوت کو ایک ساتھ ضائع کرنا اور ہر وقت غصے میں رہنا تحریک چلانے کی اچھی تدبیریں نہیں ہیں۔ تحریکیں صبر کے ساتھ چلتی ہیں۔ سیدھے نہیں بلکہ ٹیڑھےمیڑھے راستے ( زگ زیگ ) اختیار کرنا پڑتے ہیں۔
اس وقت حقیقت یہ ہے کہ لوگ عمران خان کے ساتھ ہیں اور عمران خان تحریک کی قیادت کر رہے ہیں۔ حالات ایسے بن گئے ہیں، جو کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لئے سازگار ہوتے ہیں۔ عمران خان کی تحریک بظاہر کامیاب ہو گی۔ اس کے اثرات منفی ہوں گے یا مثبت ؟ جو بویا جائے گا، وہ کاٹا جائے گا۔ فی الوقت اسٹیٹس کو خطرے میں ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔