لوٹوں کا احتجاج

اعلیٰ عدلیہ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کیا آیا کہ لوٹوں کےخاندان میں تو جیسے صفِ ماتم بچھ گئی۔ ایک لوٹے نے تو غصہ میں مجھے فون کر کے احتجاج کیا کہ ’’مظہر صاحب آخر ہماری بھی معاشرے میں کوئی عزت ہے‘‘۔ اس کی بات ذرا دل کو لگی کہ بچارے اس مہنگائی کے دور میں کہاں جائیں گے، اور کچھ نہیں تو کم از کم پرانی وفاداری کا ہی خیال کر لیا جاتا۔

یہ فیصلے ایسے موقع پر آئے جب کئی لوٹوں کی تیسری اور کسی کی چوتھی نسل تیار ہو رہی تھی۔ ابھی تو سیزن آنے والا تھا الیکشن اور پھر حکومت سازی کا مرحلہ، ایک واضح اکثریت نا ملے تو بس لوٹا فیکٹری ، کا کام شروع ۔ سیاسی عدم استحکام سے ہی اس ’’انڈسٹری‘‘ کو فائدہ پہنچتا ہے۔ سوچیں آج ڈالر 200کا ہو گیا ہے اگر رقم ڈالر میں مانگتے تو وہ بھی مل جاتی۔

 آخر چالیس سال پرانا کاروبار ہے۔ اللہ بخشے ہمارے آمروں کو اس کاروبار کو وسعت دینےمیں ان کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔  آخرکون سی حکومت ہے جو انہوں نے نہیں بنوائی یا گروائی جونیجو سے لے کر عمران خان تک ،لوگوں کو سابق وزیر اعظم سے شدید گلہ ہے اور تو اور لوٹوں پربھی ’’یوٹرن‘‘ لے لیا۔ ایک نے کہا ۔ ’’ہم نہ ہوتے تو کیا 2018 کے الیکشن سےپہلے اور بعد میں وہ ہوتا جو ہوا اور کچھ نہیں توہمارا اتنا تو احسان ہے کہ ہم نے آپ کی مدد کی۔‘‘

بہرحال لوٹا انڈسٹری نے آنے والے ممکنہ نقصانات سے بچنے اور اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کمیشن سے بھی رابطہ کیا ہے کہ وہ ان کے بنیادی حقوق سلب کرنے کے خلاف ایک رٹ داخل کرے۔ دوسرا چونکہ ان فیصلوں سے ملک بھر کے لوٹے متاثر ہوئے ہیں اور انہیں 18ویں ترمیم میں بھی کوئی تحفظ حاصل نہیں لہٰذا ایک ملک گیر کنونشن بلانے کا فیصلہ ہوا ہے۔

اس سلسلے میں سندھ اور بلوچستان کے لوگوں کو خصوصی شرکت کی دعوت دی گئی ہے کیونکہ ان میں سے کچھ گروپ کی شکل میں اب بھی موجود ہیں بلکہ انہوں نے جماعتیں بنا کر اپنے آپ کو محفوظ بنا لیا ہے۔ 

حالیہ فیصلوں کے پیچھے جو بھی عوامل ہوں اس سے جنوبی پنجاب کے کچھ خاندان فوری متاثر ہوئے ہیں جن میں خاص طور پر کوئی مخدوم تو کوئی رئیس بتائے جاتے ہیں جن کی نسلوں نے اس کاروبار کو فروغ دینے کے لیے کئی حکومتیں بنوانے میں اپنا تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ ان کی سب سے وفاداری بھی رہی اور غداری بھی۔ بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سے لے کر عمران خان کے خلاف تحریک تک اورعثمان بزدار سے وفاداری سے لے کر حمزہ شہباز پر اعتماد تک ان خاندانوں نے مثالی کردار ادا کیا ۔

یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ لوٹوں نے نیوٹرلز سے بھی رابطہ کیا ہے یہ جاننے کے لئے کہ کیا وہ واقعی نیوٹرل ہیں کیونکہ کچھ کو شک ہے کہ آخر رات 12بجے کھلنے والی عدالت دن کے 12بجے ایسے فیصلے کیسے کر سکتی ہے جس سے پہلے سے موجود معاشی عدم استحکام میں مزید اضافہ ہو کیونکہ اس طرح لوٹا انڈسٹری مفلوج ہو سکتی ہے۔ 

حالیہ مہینوں میں ٹیلی فون کالز بند ہونے سے بھی خاصہ نقصان ہوا کیونکہ اس سے لوٹوں کی کنفیوژن میں اضافہ ہوا ورنہ پہلے تو ایک کال پر سرکاری بینچ پر اور دوسری پر اپوزیشن بینچ پر ۔ ایک نے مثال دی کہ آخر سینٹ کے چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر کیا ہوا تھا۔ تحریک پیش کرتے وقت کھڑا ہونے کو یہاں تو اکثریت کھڑی ہوئی مگر سیکریٹ بیلٹ پر صادق سنجرانی صاحب فاتح ٹھہرے۔ 

ویسے ایک بار میاں صاحب کو بھی ایسا دھچکا لگ چکا ہے۔ جیسا حاصل بزنجو مرحوم کو لگا تھا۔ 1989 ءمیں بی بی کے خلاف تحریک میں انہیں پورا یقین تھا کہ تحریک کامیاب ہو گی۔ اس وقت کی حکومتی اتحادی ایم کیو ایم نے بھی خاموش حمایت کا یقین دلا دیاتھا مگر نتائج آئے تو صدر غلام اسحاق خان بھی حیران تھے اور سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ بھی۔تاریخی طور پر آج کے لوٹوں کو ماضی سے سبق سیکھنا چاہئے۔ اب تو ماشا اللہ پوری جماعت اور آزاد گروپس بن گئے ہیں جو آسانی سے 63-A سے بچ بھی سکتے ہیں۔

لوٹوں کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ نازک صورتحال کے پیش نظر انہوں نے ان تمام جماعتوں سے رابطہ کیا ہے جن کی وہ ماضی یا حال میں حمایت کرتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں شاہ محمود قریشی صاحب کا حالیہ بیان ان کے لئے حوصلہ افزا ہے جس میں انہوں نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ’’بہت سے منحرفین‘‘ واپس آنے کے لئے رابطہ کر رہے ہیں۔ آخر شاہ صاحب وضع دار آدمی ہیں جنوبی پنجاب کے لوٹوں کا تحفظ ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ 

بہت سے لوٹوں کا یہ بھی خیال ہے کہ انہوں نے بھی اعلیٰ عدلیہ کے ماضی کی طرح ہمیشہ نظریۂ ضرورت کے تحت قومی مفادمیں، اور اداروں کے کہنے پر کام کیا ورنہ آج پی پی پی اور پی ایم ایل میں تقسیم ہوتی نہ ایم کیو ایم90سے دربدر ہوتی نہ کوئی جام صادق وزیر اعلیٰ بنتا نہ مظفر حسین شاہ اور نہ ہی منظور وٹو اور شاید عثمان بزدار بھی تخت پنجاب پر براجمان نہ ہو پاتے۔ 

لوٹوں کو اس بات پر بھی غصہ ہے کہ آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کرنے والوں کو تحفظ دیا جاتا ہے اور 63-A کی تشریح بھی کر دی جاتی ہے اور انہیں ڈی سیٹ کر دیا جاتا ہے آخر ان دونوں آرٹیکلز کو ایک ساتھ بھی تو پڑھا جا سکتا ہے ،’’انصاف کا یہ دہرا معیار کیوں؟‘‘ ایک لوٹے کا سوال۔ ایک تو اتنا غصہ میں تھا کہ کہنے لگا اگر یہی سب کرنا تھا تو اس انڈسٹری کو قائم کیوں کیا تھا۔ بند ہی کرنا ہے یہ کاروبار تو پھر ابتدا سیاسی سیل کو بند کرنے سے کرنی پڑے گی۔

انہوں نے میڈیا کو بھی ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا ’’ہمیں تو آپ لوٹا کہتے ہیں مگر اپنے اپنے گریبانوں میں اور کالموں میں دیکھیں کہ کیسے کالم نویس اور اینکر قلابازیاں کھاتے ہیں؟ہم تو ویسے ہی بدنام ہیں۔ ’’باپ رے باپ‘‘ اب آپ لوگ BAP سے سمجھ تو گئے ہونگے۔لوٹوں نے آخر میں ’’ایمپائر‘‘ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے۔ 

ہماری تو خیر ہے ہم آنے والے وقتوں میں کچھ اصول وصول والی سیاست کرینگے لیکن اگر جمہوریت مضبوط ہو گئی، عدلیہ کو حقیقی آزادی مل گئی اور میڈیا میں کالی بھیڑیں نہ رہیں تو پھر آپ کا کیا ہو گا لہٰذا آپ سے درخواست ہے کہ ملک کے عظیم تر مفاد میں لوگوں کو بے پھندہ ہی رہنے دیں ،پروین شاکر سے معذرت کے ساتھ

وہ جہاں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا

بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی

مزید خبریں :