13 جون ، 2022
وزیراعظم میاں شہباز شریف کی مخلوط حکومت نے اپنی تشکیل کے صرف دو ماہ بعد بجٹ پیش کر دیا ہے ۔ اس بجٹ پر کیا تنقید کی جائے اور اس کی کیا تعریف کی جائے کیونکہ حکومت نے جو بجٹ تجاویز پیش کی ہیں ، وہ موجودہ حالات میں حکومت کی معاشی اور سیاسی مجبوریوں کا نتیجہ ہیں ۔
بجٹ سے پہلے ہی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات ، گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھا دیں جبکہ بجٹ میں ان قیمتوں میں مزید اضافے کی تجاویز ہیں ۔ بجٹ تجاویز سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مہنگائی پر کنٹرول کرنا حکومت کے بس میں نہیں ۔ حکومت بظاہر کوئی کوشش کر رہی ہے تو وہ یہ ہے کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جائے ۔ یعنی پاکستان بالآخر ا س نہج پر پہنچ گیا ہے، جس کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا ۔
آج کا بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا مخلوط حکومت پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچالے گی ؟ اگلے روز وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام نہ ملا تو ’’ ڈیفالٹ ‘‘ کر جائیں گے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈیفالٹ کرنے یعنی دیوالیہ ہونے سے اگر بچا جا سکتا ہے کہ تو یہ لازمی ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام ملے اور قرضوں کی ادائیگی اور بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لئے ہمیشہ قرضہ ملے ۔ اس طرح ہم ایک دو سال مزید گزار لیں۔ پھر وہی صورت حال ہوگی لیکن آئی ایم ایف کے قرضے کی شرائط وقت کے ساتھ ساتھ مزید سخت ہوتی جائیں گی ان شرائط پر عمل درآمد کا دائرہ ہماری معیشت اور سیاست سے بھی آگے جا سکتا ہے۔ ڈیفالٹ کا خطرہ ہر سال بڑھتا جائے گا اور آخر میں ہمیں آئی ایم ایف اور اس کے حقیقی آقائوں کی ہر شرط کے آگے گھٹنے ٹیکنا پڑیں گے ۔
سوشل میڈیا پرالزامات اور جوابی الزامات کا جو سلسلہ جاری ہے وہ اپنی جگہ ۔ مگر تشویش ناک حقیقت یہ ہے کہ سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ غیر جانبدار حلقے بھی اس مفروضے پر مبنی تجزیے سے متفق ہیں اور سب یہی خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ پاکستان کو اسی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ یہ بات ہماری سیاسی قوتوں اور غیرسیاسی ہیئت مقتدرہ کو خبردار کرنے کے لئے کافی ہے ۔
اب اگر بحث شروع کی جائے کہ پاکستان کو اس نہج تک کس نے پہنچایا تو پاکستانی سماج مزید تقسیم اور انتشار کا شکار ہو گا ۔ اس وقت ملک اس بحث کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ ویسے بھی تاریخ ذمہ داروں کا تعین کر چکی ہے اور حقیقی مجرموں پر چارج شیٹ بھی ثابت ہو چکی ہے ۔ پھر بھی اس مسئلے پر فی الحال خاموش رہنے اور پاکستان کو متحد رکھنے کی ضرورت ہے ۔ مخصوص مائنڈ سیٹ کے لوگ کھل کر اسٹیبشلمنٹ کو سیاست میں مداخلت کرنے کے لئے پاگل پن کی حد تک مطالبہ کر رہے ہیں ۔ وہ بند ذہنوں والے قابل رحم لوگ ہیں ۔ پاکستان کو اب وسیع تر اتحاد اور متفقہ قومی ایجنڈے کی ضرورت ہے، جو میثاق معیشت سے بھی بڑھ کر کوئی چیز ہو ۔
پاکستان کے بارے میں جو مفروضے قائم کئے جا رہے ہیں یا جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے ، وہ بے بنیاد نہیں ہیں ۔ پوری قوم کو اندازہ ہو گیا ہے کہ مقروض معیشت کا آخر کار انجام کیا ہوتا ہے اور قرضہ دینے والے عالمی مالیاتی اداروں کی باگ ڈور جن عالمی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے ، ان کے پاکستان کے بارے میں کیا ارادے ہیں ؟ اگر ہم اس مرتبہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط ماننے پر مجبور ہیں اور دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف کا پروگرام لینا ضروری ہے تو اس سے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹلے گا نہیں ۔ اگلے سال پھر یہ خطرہ زیادہ شدید ہو گا اور یہ سلسلہ بڑھتا رہے گا ۔
اس صورت حال سے نکلنے کا راستہ بھی وہ نہیں ، جو آئی ایم ایف تجویز کرتی ہے ۔ یعنی غریبوں کو ریلیف دینے والی سبسڈیز کا خاتمہ کر دیا جائے اور ٹیکسوں کی شرحوں میں نہ صرف اضافہ کر دیا جائے بلکہ مزید ٹیکس بھی عائد کئے جائیں ۔ یہ راستہ مزید تباہی کا راستہ ہے اور بہت تیزی سے دیوالیہ پن کی طرف دھکیلنے والا بھی ۔ غریبوں کو ریلیف نہ دینے اور ٹیکسوں میں اضافے سے نہ صرف غربت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ زیادہ ٹیکسوں کے باعث کاروبار بھی تباہ ہو جاتے ہیں ۔ صنعتیں بند ہو جاتی ہیں اور نئی سرمایہ کاری بھی نہیں آتی ۔ بظاہر یہ راستہ اس لئے بتایا ہے کہ ہم قرضے اتار سکیں اور بجٹ خسارہ پورا کرتے رہیں ،معیشت ترقی نہیں کرے گا ۔
ویسے بھی آئی ایم ایف کو اپنے قرضوں کی واپسی سے کوئی سروکار نہیں ۔ وہ اس سے کہیں زیادہ پیسے وصول کر چکا ہے ، جو اس نے ہمیں اب تک دیئے ہیں ۔ وہ صرف عالمی طاقتوں کے پاکستان کے بارے میں اہداف کے حصول کے لئے حالات پیدا کر رہا ہے ۔ جب تک ہم اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آئی ایم ایف پر انحصار کرتے اور اس کی ڈکٹیشن لیتے رہیں گے ، ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکیں گے بلکہ مزید دھنستے جائیں گے ۔ ہمیں دوسرے راستے اختیار کرنا ہوں گے اور ایسے حالات پیدا کرنا ہوں گے کہ ہم آئی ایم ایف پروگرام کے محتاج نہ رہیں ۔
دوسرے راستے موجو دہیں ۔ ایک راستہ وہ ہے ، جس کی نشاندہی سابق صدر آصف علی زرداری نے کی ہے کہ اپنی کارپوریشنز اور دیگر خود مختار و نیم خود مختار اداروں کے کچھ فیصد حصص فروخت کر دیں ۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ حکومت رئیل اسٹیٹ کو نجی سرمایہ کاروں کے تعاون سے ترقی دے اور فروخت کرے ۔ لوگ بھی تب ہی ادارے سے مہنگے پلاٹ لیتے ہیں ۔ حکومت اور نجی شعبے کی شراکت سے وہ پلاٹ نسبتاً کم قیمت پر دستیاب ہوں گے اور حکومت کو اربوں ڈالرز کی آمدنی ہو گی ۔
اسی طرح حکومت دیگر وسائل سے بھی پیسہ حاصل کر سکتی ہے ۔ اگر عزم ہو تو کوئی چیز ناممکن نہیں۔ حکومتوں کو بجٹ بنانے کے لئے آزادانہ فیصلے کرنے کے حالات پیدا کرنا ہوں گے ۔ اس کے لئے قومی اتفاق اور سیاسی استحکام ضروری ہے ۔ بنیادی دھارے کی سیاسی قوتیں اس حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتی ہیں ۔ ایسا نہ کیا گیا تو دیوالیہ ہونے سے صرف ایک یا دوبار بچا جا سکے گا ۔ تیسری بار آئی ایم ایف اور اس کے سرپرست اپنے مقصد پر آجائیں گے ۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے ۔ آمین۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔