Time 15 جون ، 2022
بلاگ

عمران کا سیاسی امتحان

سابق وزیراعظم عمران خان نے آج سے 26 سال پہلے جب عملی سیاست میں قدم رکھا تو ان سمیت ایک دو کو چھوڑ کر کسی کو بھی سیاست کا تجربہ نہیں تھا، احتجاجی تحریک تو دور کی بات حکمت عملی بھی کوئی نہیں تھی۔

شروع کے لوگوں میں پڑھے لکھے لوگ ضرور تھے مگر ماسوائے نجیب ہارون یا کسی حد تک حامد خان کے باقی لاٹھی، گولی اور آنسو گیس کے قریب سے بھی نہیں گزرے تھے۔ تین تو Phd پروفیسر تھے۔

خان صاحب کے سامنے کوئی سو سال، کوئی پچاس سال تو کوئی چالیس سال کا تجربہ رکھنے والی جماعتیں تھیں جن کے کچھ رہنمائوں کو تو مارشل لا کی اذیت کا بھی تجربہ تھا، اس کے سامنے کھڑے رہنے کا بھی اور پھر حکومتوں میں رہنے کا بھی۔

مگر خان صاحب نہ ان کیلئے اور نہ ہی عوام کیلئے اجنبی تھے بلکہ کرکٹ کی وجہ سے اسکرین کی ایک پرکشش شخصیت تھے۔ سیاست میں ان کا سفر سست رفتاری سے شروع ہوا ان کو اس وقت کے مشہور ’ایمپائر‘ جنرل حمید گل نے استعمال کرنے کی کوشش کی مگر وہ جلدی ان کے چنگل سے نکل گئے۔ نا تجربہ کاری کا یہ عالم تھا کہ 1996میں تحریک انصاف کی بنیاد رکھی اور چند ماہ بعد ہی 1997 میں عام انتخابات میں چلے گئے،جن میں بُری طرح ناکامی ہوئی۔

الیکشن کیسے لڑا جاتا ہے کچھ پتا چل گیا۔ تاہم انہوں نے دو بنیادی نکتوں پر سیاست کی ایک مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی دونوں کو کرپٹ کہنا اور دوسرے ملک کو تیسری سیاسی قوت کی ضرورت ہے۔ وہ پرویز مشرف کے ساتھی بھی رہے 1999سے 2002 تک، بعد میں مشرف کی گجرات کے چوہدریوں کی حمایت کے باعث ان کے مخالف ہوگئے اور نواز شریف اور قاضی حسین احمد مرحوم کے اتحادی بن گئے۔ اب چوہدری ان کے اتحادی ہیں۔

25 مئی کو ’لانگ مارچ‘ نے خان صاحب اور پی ٹی آئی کو احتجاجی تحریک کا تجربہ بھی دیا، مزہ بھی چکھا مگر ریاستی جبر کا وہ اس طرح مقابلہ نہ کرسکے جیسا بے نظیر بھٹو نے کیا تھا۔ ایک بار تحریک میں بریک آجائے تو اسے دوبارہ شروع کرنا مشکل ہوتا ہے۔

اس تحریک میں پی ٹی آئی کا کوئی پلان نہیں تھا نہ اے،بی نہ سی۔ ایسا ہی کچھ 1986میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی ہوا تھا جب انہوں نے 1983کے بعد دوبارہ MRD کی تحریک شروع کرنے کی کوشش کی۔ ناکامی کے باوجود انہوں نے تمام رکاوٹیں توڑیں اور آنسو گیس، گولیوں کے دوران لیاری میں جلوس کی قیادت کی وہ کسی ساتھی کی گاڑی میں چھپ کر وہاں پہنچیں۔

کسی بھی احتجاجی تحریک کا ایک بار ٹیمپو ٹوٹ جائے تو اسے دوبارہ شروع کرنا ذرا مشکل ہوتا ہے مگر جماعتیں حکمت عملی تبدیل کرتی ہیں لگتا ایسا ہی ہے کہ خان صاحب لانگ مارچ کے علاوہ احتجاج کے دوسرے طریقہ اپنانے کے موڈ میں نہیں ہیں مثلاً جیل بھرو تحریک، پہیہ جام ہڑتال یا مظاہرہ۔

2014کی طرح قومی اسمبلی سے 130 اراکین کا استعفیٰ دینا خان کی اتنی ہی بڑی سیاسی غلطی ہے جتنی تمام اتحادی جماعتوں کا خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانا۔

سیاست محض عوامی مقبولیت کی بنا پر آپ کو اقتدار کی راہ داریوں تک نہیں لے جاسکتی اس ملک کی تاریخ میں مقبول رہنما یا تو تختہ دار تک گئے یا مارے گئے۔ ایسا نہیں کہ خان صاحب کو دوبارہ اقتدار نہیں مل سکتا اور اگر انہوں نے دوبارہ بڑی کامیابی حاصل کی تو وہ بھی ایک نیا تجربہ ہوگا دیکھنا صرف یہ ہے کہ انہوں نے تاریخ سے سبق سیکھا ہے یا نہیں۔

انہوں نے 2011 کے بعد اپنی جماعت تحریک انصاف کو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تو منوالیا۔ اس ملک کو نئے سیاسی کارکن اور اراکین اسمبلی بھی دیئے، چار سال کا حکومتی تجربہ ہوا مگر سیاسی تربیت کی طرف توجہ نہیں دی۔

اس آن لائن کلچر کے اثرات آگے جاکر خاصے منفی آنے ہیں۔ دوسری بڑی جماعتوں کی طرح یہاں بھی پارٹی میں جمہوریت نظر نہیں آتی یہاں بھی بلا مقابلہ منتخب ہونے کی روایت پڑگئی ہے۔اس وقت خان صاحب اور پی ٹی آئی کا اصل امتحان دوبارہ لانگ مارچ نہیں بلکہ جون کے آخر اور جولائی میں ہونیوالے بلدیاتی اور پنجاب میں 20 صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے انتخابات ہیں۔ یہ مسلم لیگ (ن) اور اتحادی حکومت کا بھی بڑا امتحان ہوگا۔

26جون کو اندرون سندھ، 17جولائی کو پنجاب اور 29 جولائی کو کراچی حیدرآباد میں بلدیاتی اور ضمنی الیکشن عام انتخابات سے پہلے ٹرائل میچ سمجھے جاسکتے ہیں۔

لہٰذا خان صاحب اور ان کے حکومتی مخالفین کو بھی ان انتخابات نتائج بتادیں گے کہ کس کا فیصلہ درست تھا کس کا غلط۔

کل بروز جمعرات کراچی میں NA-240 میں ضمنی الیکشن حکومتی اتحادی متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کا بڑا امتحان ہوگا کیونکہ لانڈھی کورنگی کی یہ نشست انہی کے رکن ڈپٹی محمد اقبال کے انتقال کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔

یہاں پی ٹی آئی یا جماعت اسلامی سامنے نہیں بلکہ تحریک لبیک پاکستان، پاک سرزمین پارٹی اور مہاجر قومی موومنٹ (آفاق) یا حقیقی سامنے ہیں اور خود حکومتی اتحادی پی پی پی بھی مدمقابل ہے۔ اس کا نتیجہ کراچی کی سیاست کے حولے سے اہم ہوگا ایک ایسے موقع پر جب بلدیاتی الیکشن میں ایک ماہ باقی ہے۔

عمران خان کے پاس اس وقت الیکشن کی حکمت عملی احتجاجی تحریک کے مقابلے میں زیادہ اہم ہوگی۔ پنجاب میں یہ 20 نشستیں یا تو پی ٹی آئی نے جیتی تھیں یا ان آزاد اراکین نے جنہوں نے پی ٹی آئی کی حمایت کی مگر 63-A کی بدولت ڈی سیٹ ہوگئے۔

لہٰذا ان میں شکست خان صاحب کو بڑا دھچکا دے سکتی ہے اور کامیابی مسلم لیگ (ن) کیلئے نوشتہ دیوار، عام انتخابات سے پہلے۔ اندرون سندھ تو لگتا ہے پی ٹی آئی بلدیاتی الیکشن لڑ ہی نہیں رہی اس لیے نہ خان صاحب نظر آرہے ہیں نہ شاہ محمود اور نہ ہی اسد عمر۔ تو بظاہر پی پی پی کو واک اوور والی صورتحال مل رہی ہے۔ البتہ 24جولائی کو کراچی اور حیدرآباد کا تاج کس سر پر سجے گا یہ انتہائی اہم ہوگا کیونکہ شہری سندھ کی اس وقت بڑی جماعت پی ٹی آئی ہے۔

لہٰذا 25مئی کے بعد کی سیاسی صورتحال میں جہاں حکومت کو معاشی سونامی کا سامنا ہے وہی عمرانی سونامی کا بھی سامنا ہے۔ عمران کے پاس اس وقت عوام کو کہنے کیلئے بہت کچھ ہے امریکی مخالف بیانیہ سے لے کر معاشی بحران، مہنگائی مگر کیا وہ اسے الیکشن کی جیت میں بدل سکتے ہیں یہی ان کا سیاسی امتحان ہوگا۔

دوسری طرف تجربہ کار جماعتوں اور رہنمائوں کے سامنے ایک انتہائی مشکل صورتحال ہے جو انہوں نے اپنے گلے خود ہی باندھی ہے اب اگر انتخاب سے پہلے والے انتخاب جیت گئے تو گاڑی چلے گی ورنہ جو جیتا وہی سکندر۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔