مہنگائی کا بوجھ صرف عوام پر کیوں؟

لوگوں کو یہ خوشخبریاں سنائی جا رہی ہیں کہ پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی ایف ) کی ’’ گرے لسٹ ‘‘ سے نکلنے جا رہا ہے اور پاکستان کا عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف ) سے اسٹاف لیول ایگریمنٹ ( ایس ایل آر ) ہو گا اور پاکستان نادہندہ یا دیوالیہ ہونے سے بچ جائے گا ۔ ملک کے لیے یہ یقیناً اچھی خبریں ہیں لیکن یہ اچھی خبریں سننے کے لیےلوگوں نے جو بری خبریں سنی ہیں ، کیاان کے بارے میں کبھی کسی نے سوچا ؟

تھوڑے ہی عرصہ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 85سے110 روپے فی لیٹر تک ریکارڈ اضافہ کیا گیا ۔ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھا دیے گئے امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قدر تقریباً 20 روپے تک گر گئی ۔ مہنگائی کے سیلاب نے بند توڑ دیے ہیں اور حالات اب کسی کے کنٹرول میں نہیں ۔ آٹا ، چاول ، دالیں اور گھی جیسی بنیادی ضرورت کی اشیا لوگوں کی پہنچ سے دور ہو گئی ہیں ۔ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے ۔ اب تو لوگوں کو اچھی خبریں سننے سے خوف آ رہا ہے جبکہ یہ بری خبریں ہیں ۔

تادم تحریر پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلا نہیں ہے لیکن نکلنے کے قوی امکانات ہیں ۔ آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول ایگریمنٹ ( ایس ایل اے ) کے قابل عمل ہونے پر بھی خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ خبریں آ رہی ہیں کہ نئی مخلوط حکومت نے 10جون کو قومی اسمبلی میں جو بجٹ پیش کیا ہے ، اس پر آئی ایم ایف کو بعض اعتراضات ہیں ۔ 

اطلاعات کے مطابق بجٹ میں دیے گئے ریلیف پیکیج اور سبسڈیز سے آئی ایم ایف متفق نہیں ہے ۔ بجٹ میں آمدنی کا جو تخمینہ لگایا جا رہا ہے ، اس میں بھی آئی ایم ایف مزید اضافہ چاہتا ہے ۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کے بعد اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف مطالبہ کر رہا ہے کہ پیٹرولیم لیوی بھی نافذ کی جائے ۔

 شاید ان خدشات کی وجہ سے بجٹ کے فوراً بعد روپے کی قدر میں تیزی سے مزید کمی ہوئی اور اسٹاک مارکیٹ 1000 پوائنٹ یعنی 2فیصد تک کر گئی ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو حتمی شکل دینے سے متعلق اچھی خبر سننے کے لیے پاکستان کو مزید کچھ کرنا ہو گا ۔ اسی طرح ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے اور اس کے بعد بھی کئی شرائط پر عمل درآمد کرنا ہو گا ۔ یعنی مزید اچھی خبریں آنے کی اطلاعات پر لوگ پریشان ہیں اور انہیں انداز ہ نہیں ہے کہ ان اچھی خبروں کی انہیں کیا قیمت چکانی پڑے گی ۔

پاکستان کے عوام اپنے ملک اور اپنی دھرتی سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ان کی حب الوطنی کو مزید آزمائش میں نہ ڈالا جائے ۔ عوام نے آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے معاہدوں اور ایف اے ٹی ایف جیسے عالمی اداروں کی سختیوں کی بہت قیمت ادا کر دی ہے ۔ اب ان میں مزید سکت نہیں ہے ۔ اب یہ قیمت ان مقتدر حلقوں اور طبقات کو ادا کرنی چاہیے ، جنہوں نے ملک کو اس منزل تک پہنچایا ہے ۔ 

یہ وقت الزام تراشی یا ذمہ داری کے تعین میں الجھنے کا نہیں ہے ۔ یہ بحث بھی فضول ہے کہ کس حکومت نے زیادہ حالات خراب کیے اور کس حکومت نے بہتری کی کوشش کی ۔ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ پاکستان کو اس بحران کی طرف دھکیلنے والا کون ہے ۔ کنٹرولڈ میڈیا میں ( جسے فورتھ اسٹیٹ میڈیا بھی کہا جاتا ہے ) زیادہ کھل کر بحث نہیں ہوتی لیکن سوشل میڈیا میں لوگ نتائج تک پہنچنے میں کنٹرولڈ میڈیا کے محتاج نہیں ہوتے ۔ سوشل میڈیا نے اس تاریخی حقیقت کوآشکار کیا ہے کہ دانشوروں اور حکمرانوں سے عوام زیادہ باشعور ہوتے ہیں ۔ جنہوں نے ملک کو اس نہج تک پہنچایا ہے ، انہیں کم از کم اب اس حقیقت کا ادراک کر لینا چاہئے کہ عوام مزید بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے ، اس کا مطلب بھی ہرگز یہ نہیں ہے کہ عوام محب وطن یا پر امن نہیں ہیں ۔

میں گزشتہ دو تین کالموں میں نوشتہ دیوار کی طرف اشارہ کر رہا ہوں ، جس پر لکھا ہے کہ اگر آئی ایم ایف کا مطلوبہ پیکج مل بھی جاتا ہے تو بھی نہ پاکستان معاشی بحران سے نکل سکتا ہے اور نہ ہی پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ مستقل طور پر ٹل سکتا ہے ۔ پاکستان کچھ سال اور آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکجزلے سکے گا اور ہر دفعہ شرائط مزید سخت ہوتی جائیں گی ۔

 یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہیں چلے گا ۔ پاکستان کو بالآخر ڈیفالٹ کی طرف لے جایا جائے گا ،آگے جاکر ڈیفالٹ سے پہلے جو سخت شرائط عائد کی جائیں گی یا ڈیفالٹ کے بعد جو شرائط عائد ہوں گی ، ان پر آج سے عمل کیا جائے تو پاکستان بہتری کی طرف جا سکتا ہے۔ ان ممکنہ شرائط سے حکمراں واقف ہیں ۔ یہاں ان کا تذکرہ ضروری نہیں ہے ۔

اب حکمران حلقے اور بالائی طبقات رضاکارانہ طور پر بوجھ میں حصہ دار بنیں بلکہ سب سے بڑے حصہ دار بنیں ۔ وہ رضاکارانہ طور پر ایسا کریں گے تو ملک کی سکیورٹی سےمتعلق معاملات کا فیصلہ انہی کے ہاتھ میں رہے گا ۔ اگر آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی یا مانیٹرنگ ادارے ان سے ایسا کرائیں گے تو پھر فیصلے بھی انہی کے ہاتھ میں ہوں گے ۔ ابھی سے کوشش کی جائے کہ جو ملک کے لیے اچھی خبریں ہوں ، وہ اکثریتی غریب عوام کے لیے بری خبریں نہ ہوں ۔

 اگر اچھی خبریں عوام کے لیے اچھی خبریں نہ بنیں تو پھر سب کے لیے بری خبریں ہوں گی۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور ان میں پائی جانے والی بے چینی اپنی آخری حدوں کو چھو ر ہی ہے اس کا سبب ناقابل برداشت مہنگائی ، بے روزگاری ، بھوک ، غربت اور مایوسی ہے ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔