28 جون ، 2022
کہتے ہیں، انصاف وہ ہے جو نظر آئے۔ ہمارے بد نصیب ملک میں انصاف تو نیست و نامود ہے لیکن اس کا تسلسل نا انصافی اور لاقانونیت کی صورت میں بڑے آب و تاب کے ساتھ موجود ہے ۔۔جس کے نتیجے میں احساس عدم تحفظ اور محرومی تھانوں میں جنم لیتی اور یہیں محروم طبقے کے خلاف ظلم و بربریت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔
مدعی کو ملزم اور ملزم کو مجرم سمجھنے والے پولیس کے اس طبقہ نے تھانوں کو وحشت اور دہشت کدہ بنا دیا۔۔شریف شہری کے لئے تھانے جانے کا تصور اس قدر ہوش باختہ عمل ہوتا ہے جیسے اسے گوانتاناموبے جانا ہے جہاں اسے انصاف نہیں بلکہ اسے مدعی سے ملزم ثابت کرنے کے لئے کسی خود ساختہ جرم میں پابند سلاسل کیا جاسکتا ہے۔۔لوگوں کے پولیس کے بارے اس قسم کے خدشات من گھڑت کہانیاں یا مفروضے نہیں بلکہ پولیس کی "سماج دشمن کارکردگی" اس سے کہیں زیادہ سنگین اور پر تشدد ہوتی ہے جسے نہ تو لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ایسے الفاظ متعارف ہوئے ہیں جن سے پولیس کے مظالم کا نشانہ بننے کی پیاس بجھائی جا سکتی ہو۔۔
دنیا کے مہذب ممالک میں تھانےامن، سکون، انصاف اور قانون کے محافظ کی علامت کی طور پر مانے اور جانے جاتے ہیں۔۔وہاں پولیس سمیت تمام مقتدر حلقے قانون کے مطابق اپنی اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیتےہیں۔۔کسی کو کسی بھی حالت میں Impunity حاصل نہیں ہوتی۔۔سب اپنے اپنے ملک کے قانون کے تابع ہوتے ہیں۔۔لیکن ہمارے ملک میں نہ قانون پر عمل درآمد ممکن ہے اور نہ ہی قانون کی کوئی حیثیت ہے۔۔اگر کوئی حیثیت ہے تو صرف قانون نافذ کرنے کا اختیار رکھنے والوں کو ہوتا کہ وہ موم کی اس ناک کو جس طرف چاہیں، موڑ دیں۔
ایک پولیس انسپکٹر اور سب انسپکٹر کے ساتھ ساتھ تفتیشی افیسراندھے اختیارات کے حامل ہوتے ہیں۔۔جب چاہیں مقدمے کا رخ مجرم کی طرف مدعی کے خلاف موڈ دیتے ہیں۔۔چرس کو مٹی، شراب کو پانی اور ہیروئین کو نمک میں تبدیل کرنے میں قدرت رکھتے ہیں۔۔یہاں تک کہ ان کی جانب سے تیار کئے گئے ایسے کاغذات کی قانونی حیثیت کو کسی سطح پر چیلنج کرنا ممکن نہیں ہوتا۔۔اسی لئے اس تاثر کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی جرم پولیس کی معاونت کے بغیر ممکن نہیں۔۔اور بڑے بڑے منظم گروہ اور جرائم کے دھندے انہیں کے دم قدم سے قائم ہیں۔
یہ تاثر بھی درست ہو سکتا ہے کہ تھانوں میں ہر جرم کی قیمت مقرر ہے جس کا تعین جرم کی سنگینی کے مطابق ہوتا ہے۔۔کسی بھی جرم کی تفتیش کے دوران اس کی قانونی حیثیت اور سنگینی کو زیر بحث نہیں لایا جاتا بلکہ ظالم اور مظلوم یعنی ملزم اور مدعی کی مالی حیثیت کے مطابق انصاف کی خریدوفروخت ہوتی ہے۔جو زیادہ "بولی" لگائے گا، "انصاف" اسی کے پلڑے میں جائے گا۔۔اس بات کی تصدیق کئی ذرائع سے کی جا سکتی ہے کہ تفتیشی افسر یا تھانیدار ریپ کی شکائت درج کرانے کے لئے آنے والی لڑکی یا عورت کو ہدائت کرتے ہیں کہ پہلے وہ خود میڈیکل ٹیسٹ کرائے پھر اس کی میڈیکل رپورٹ کی روشنی میں ان کی درخواست پر کارروائی ہو سکتی ہے۔یہ جرم کا بھاؤ بڑھانے کے لئے تاخیری حربہ ہوتا جس کے بعد پولیس درخواست میں نامزد ملزم سے رابطہ کر کے لین دین کے دروازے کھول دیتی ہے۔۔اور دوسرا پہلو یہ کہ مدعی کسی انجانے خوف کی وجہ سے رپورٹ درج کرانے کا ارادہ ترک کر دیتی ہے۔لیکن نامزد ملزم کے ساتھ لین دین کا رشتہ قائم رہتا ہے۔
گزشتہ عشرے کے دوران وردی کی طاقت کے بہیمانہ استعمال کے واقعات سے ماحول پر لرزہ طاری ہو گیا جو شائد وردی کی طاقت استعمال کرنے والوں کے آقاؤں نے محسوس نہ کیا ہو۔۔ایک واقعہ شیخوپورہ کی ایک تحصیل فاروق آباد میں ایک دو ہفتے پہلے پیش آیا جس میں وہاں کے اوباش نوجوانوں نے ایک بچے کو اغوا کر کے گینگ ریپ کیا لیکن بھلا یہ کیا کہ شناخت ہونے کے باوجود اسے قتل نہیں کیا۔۔تاہم دادرسی کے لئے جب بچے کے ورثاء نے پولیس اسٹیشن میں رابطہ کیا۔۔پہلے تو تھانیدار نے حیلے بہانوں سے اس غریب خاندان۔ کو ٹرخانے کی کوشش کی لیکن جب انہوں نے ایف۔آئی۔آر۔ درج کرانے کی ضد کی تو تھانیدار نے دھمکیاں دیتے انہیں تھانے سے نکل جانے کا حکم دیا۔لیکن حالات کی سنگینی کو محسوس کرتے اوباش نوجوانوں کے خلاف پرچہ درج کر لیا لیکن گرفتار نہیں کیا۔۔پورے نظام میں مدعی پارٹی کی دادرسی کرنے والا کوئی نہیں تھا۔۔تفتیشی، تھانیدار، ڈی۔ایس۔پی۔ (تحصیل ہیڈ)، ڈی۔پی۔او. اور آر۔پی۔او، سب ایک پیج پر تھے۔
اور آخرکار مدعی پارٹی نے اپنی کمزور حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے پولیس کے دباؤ پر جرگہ کے ذریعے صلح کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔حالانکہ یہ معاملہ لڑائی جگھڑے کا نہیں بلکہ بچے کے اغوا اور گینگ ریپ کا تھا ۔اسی نوعیت ایک اور واقعہ وفاقی دارالحکومت کے ایک تھانے میں پیش آیا جب ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون اپنی آبرو ریزی کی شکائت درج کرانے کے لئے گئی لیکن با اختیار تھانیدار نے یہ کہہ کر درخواست وصول کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ پہلے اپنے طور پر ریپ کا الزام ثابت کرنے کے لئے اپنا طبی معائنہ کرائے۔۔اور وہ کسی اور در کی تلاش میں چل پڑی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔