10 جولائی ، 2022
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی حکومت خلاف جلسے، جلسوں اور بیانات سمیت اعلانیہ اور دیگر غیراعلانیہ سرگرمیوں میں ان کی سابق حکومت کے کئی اہم ساتھیوں جنہیں ’’معتمد خاص‘‘ کا درجہ حاصل تھا اب ان کے سیاسی قرب سے دور ہو چکے ہیں جن میں قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر اسد قیصر کا نام بھی بطور خاص لیا جارہا ہے جن کی عمران خان سے وابستگی اب برائے نام اور بعض مواقعوں پر محض حاضری کی جھلک تک ہی محدود ہے۔
گوکہ اسد قیصر کے قریبی ذرائع اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ اسد قیصر پس منظر میں جاچکے ہیں اور ان کا عمران خان سے رابطہ ختم ہو چکا ہے لیکن وہ اس بات پر بھی مصر ہیں کہ اسد قیصر بعض ایشوز پر بات کرنے کے لیے دستیاب نہیں ہیں اس لیے ان سے رابطے کی کوشش بھی بے سود ہوں گی۔
دوسری طرف کئی ’’واقعاتی شواہد‘‘ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ خود سابق وزیراعظم عمران خان نے رواں ہفتے اپنے ایک انٹرویو کے دوران اس حوالے سے بعض اعترافات اور انکشافات کیے ہیں جن میں جہاں وہ اپنی حکومت ختم کیے جانے کا ذمہ دار ’’امریکی سازش‘‘ اور پاکستان کی بعض اہم شخصیات کو ان کا آلہ کار قرار دیتے ہوئے انہیں ذمہ دار قرار دیتے ہیں وہیں انہوں نے اس حوالے سے اب اپنی حکومت میں قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کو بھی اس کا ذمہ دار قرار دے دیا ہے۔
معروف کالم نگار اور صحافی جاوید چوہدری کو دیے گئے عمران خان کے اس انٹرویو کی بعض تفصیلات اب منظرعام پر آنا شروع ہوگئی ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ تحریک عدم اعتماد کے موقع پر 9 اور 10 اپریل کی درمیانی شب کو کیا ہوا تھا۔
اس کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ اس رات کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا جس کے بارے میں قیاس آرائیاں اور افواہیں پھیلائی گئیں تھیں، نہ تو کوئی ہیلی کاپٹر آیا تھا اور نہ ہی مجھ پر آرمی کی طرف سے کسی قسم کا کوئی دباؤ ڈالا گیا تھا تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ٹیلی فون تسلسل کے ساتھ آ رہے تھے لیکن اس کے باوجود سارے معاملات ہماری گرفت میں تھے۔
عمران خان نے بتایا کہ امریکی مراسلے کو ڈی کلاسیفائی کرنے کے لیے میں نے کابینہ کا اجلاس بلایا کیونکہ میرا خیال تھا کہ اگر ہماری حکومت ختم ہو گئی تو پھر اسے ڈی کلاسیفائی نہیں کیا جا سکے گا۔
سابق وزیراعظم نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ انفارمیشن لیک کرنے کی پاداش میں میرے خلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی شروع ہو جائے تاہم میں نے کابینہ سے منظوری لے لی، اس وقت تک بھی معاملات ہماری دسترس میں تھے۔
ان کا کہنا تھا میں نے کابینہ کے اجلاس کے بعد کچھ اینکرز سے ملاقات کی اور وہاں سے پرائم منسٹر ہاؤس چلا گیا جہاں میں نے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر سے کہا کہ اگر سپریم کورٹ کا حکم ہے تو آپ آج کارروائی شروع کریں اور انہیں ہدایت کی ہم نے چار دن تک قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی ہر صورت چلانی ہے، اگر اس کے بعد بھی ووٹنگ ہوتی ہے تو پھر دیکھا جائے گا۔
مذکورہ صحافی کے مطابق عمران خان نے بتایا کہ میں نے دیکھا کہ اسد قیصر کا رنگ پیلا پڑا ہوا تھا چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور ٹانگیں کانپ رہی تھیں، لفظ ان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے، وہ صرف ایک کال پر ڈھیر ہو چکے تھے اور شکست خوردہ لہجے میں کہنے لگے ’’عدالتیں کھل گئیں ہیں جیل کی گاڑیاں اور ایمبولینس آگئی ہیں، میں ہمیشہ کے لیے ڈس کوالیفائی ہو جاؤں گا‘‘۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ میں نے اسد قیصر کو حوصلہ دیا کہ ڈٹ جاؤ کچھ نہیں ہوگا لیکن انہوں نے معذرت کر لی۔ عمران خان نے کہا کہ مجھے یقین تھا کہ اگر اسد قیصر کی ٹانگیں نہ کانپتیں تو صورتحال مختلف ہو جاتی، ان کے علاوہ ہمارے بعض دوسرے ساتھیوں کے بھی جنہیں ٹیلی فون کالز آئی تھیں ان کے چہرے بھی اڑے ہوئے تھے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسد قیصر کا سیاسی پس منظر نہ تو زیادہ طویل ہے اور نہ ہی غیر واضح یا متنازعہ، پاکستان تحریک انصاف ان کی دوسری سیاسی جماعت ہے جس میں وہ قومی سطح کی سیاست میں منظر عام پر آئے، اس سے قبل وہ جماعت اسلامی سے وابستہ تھے اور انہوں نے سیاست کا آغاز بھی جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ سے کیا تھا اور ان کی ابتدائی تنظیمی ذمہ داری ناظم اسلامی جمعیت طلبہ رہی اور پھر وہ جماعت اسلامی کے یوتھ ونگ ’’پاسابان ‘‘ کے ڈویژنل صدر بن گئے تھے۔
پاکستان تحریک انصاف میں انہوں نے 1996میں شمولیت اختیار کی اور پھر مختلف تنظیمی عہدوں پر فائز رہنے کے بعد 2013 میں پہلی مرتبہ اپنے حلقہ نیابت صوابی سے قومی اور صوبائی اسمبلی دونوں نشستوں پر کامیابی حاصل کی لیکن ہدف اسمبلی کا اسپیکر بننا تھا جو 2018 میں کامیابی کے بعد صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑ کر قومی اسمبلی کے اسپیکر کے لیے اپنے مدمقابل امیدوار سید خورشید شاہ کو شکست دیکر حاصل کیا۔