18 جولائی ، 2022
استاد نے شاعر اور شعر کی پہچان یہ بھی بتائی تھی کہ ہاتھ پتھر تلے آ جائے یا سرخوشی کا عالم ہو تو شاعر ققنس کی مانند زندہ ہو جاتا ہے اور اس کا شعر برسات کی پروائی کی طرح دلوں پر رم کرتا ہے۔ اب دیکھئے، غالب کے غیر متداول کلام کا یہ ٹکڑا کس قیامت کی گھڑی میں یاد آیا۔ آج جولائی 2022کی سترہ تاریخ ہے۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے میں بیس نشستوں پر ضمنی انتخاب کی گہما گہمی ہے۔ الزامات کی بوچھاڑ ہے۔ سرکاری بیانات ہیں۔ اخبار نویس کسی پامال صحافتی روایت کے اتباع میں کوئی ایسی خبر ڈھونڈ رہے ہیں جس میں دلہا سہرا باندھے ووٹ ڈالنے پہنچ گیا ہے یا ایک پیر فرتوت کندھوں پر بٹھا کر ووٹ ڈالنے لایا جا رہا ہے۔
عام انتخاب ہو یا ضمنی معرکہ، حکومتیں ایسی خبر کا التزام سے اہتمام کرتی ہیں تاکہ انتخابی عمل میں عوام کا جوش و خروش ظاہر کیا جا سکے۔ یہ الگ قصہ ہے کہ مارچ 1951 میں پنجاب کے صوبائی انتخابات میں راولپنڈی سازش کیس کی بارودی سرنگ لگا کر مرزا ابراہیم اور احمد سعید کرمانی کے انتخابی حلقے میں ڈپٹی کمشنر لاہور سید سعید جعفری کے دست مبارک سے جھرلو کی چنگاری پھینک دی گئی تھی۔ ٹھیک تین برس بعد مارچ 1954میں مشرقی بنگال کے صوبائی انتخابات میں جگتو فرنٹ نے 309 میں سے 299 نشستیں جیت کر اپریل میں مولوی فضل الحق کی سربراہی میں صوبائی وزارت قائم کی تو اسے ایک ماہ بعد ہی مئی 1954 میں تحلیل کر کے گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ یہ ہماری انتخابی روایت کے ابتدائی خد و خال تھے۔
ویسے آپ سے بہتر کسے یاد ہو گا۔ یونہی حکایت شب اندوہ دہراتا ہوں کہ جمہوری جدوجہد دراصل تاریخ کی فراموشی کے خلاف فرد کی یادداشت زندہ رکھنے سے عبارت ہے۔ 1947 سے 1955 تک پاکستان میں کل 22صوبائی وزارتیں توڑی گئیں جن میں کسی ایک موقع پر بھی قانونی یا پارلیمانی قواعد کو زحمت نہیں دی گئی۔ عدم اعتماد کے طریقہ کار کو کبھی زحمت نہیں دی گئی۔ محض صدر مقام کراچی سے ایک فرمان جاری کرنا کافی خیال کیا گیا۔ مشرقی بنگال میں پانچ صوبائی وزارتیں کھیت رہیں، پنجاب اور سرحد میں چار چار مرتبہ یہ کھیل کھیلا گیا۔
سندھ میں آٹھ وزارتیں گھر بھیجی گئیں۔ بلوچستان کو سرے سے صوبائی درجہ ہی حاصل نہیں تھا۔ مہذب ملکوں میں انتخابی عمل اور عدالتی کارروائی میں ایک بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔ دوران سماعت جہاں ایک وکیل اس نتیجے پر پہنچے کہ اس نے حرف قانون کے مطابق اپنا موقف ثابت کر دیا ہے تو وہ مزید وقت ضائع کئے بغیر عدالت سے التماس کرتا ہے کہ اسے مزید کچھ نہیں کہنا (I rest my case) دوسری طرف انتخابی عمل میں آخری ووٹ کی گنتی تک نتیجے کی پیش بینی ممکن نہیں ہوتی۔ ہماری خاک ِپریشان کسی خاص منطقے سے اٹھائی گئی ہے۔
عدالتی فیصلہ حرف قانون کی بجائے اختیار اور اقتدار کی میزان کے تابع ہوتا رہاہے چنانچہ سانس روک کر انتظار کرنا پڑتا ہے کہ عدل کے ایوانوں سے کس رنگ کا کبوتر برآمد ہو گا۔ دوسری طرف انتخابی عمل میں ہم ایسے طاق ہیں کہ پہلا ووٹ بیلٹ باکس میں گرنے سے پہلے بچہ بچہ انتخابی نتیجہ جانتا ہے اور ایسی دور اندیشی کہ کبھی خلاف توقع نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ وجہ کیا ہے؟ اب ہر بات نیاز مند سے تو نہیں پوچھئے۔ ہم کہہ کے ہوئے بدنام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے۔ جب یہ سطور آپ کی نظر سے گزرہی ہوں گی تو آپ خود جان لیں گے کہ بیس نشستوں کے ممکنہ نتائج میں ایک آدھ اتفاقی اونچ نیچ کے استثنا کے ساتھ سیاسی پنڈتوں کی پیش گوئیاں کیسے حرف بحرف درست ثابت ہوتی ہیں۔
پاکستان میں ضمنی انتخابات کی ایک الگ دلچسپ روایت ہے۔ 1971میں مشرقی پاکستان سے کلکتہ چلے جانے والے عوامی لیگ کے 78منتخب نمائندوں کی جگہ ضمنی انتخاب کرانے کا اعلان ہوا۔ ضمنی انتخابات میں دسمبر 1970 کی شکست خوردہ سیاسی جماعتوں میں مفروضہ نشستوں کی بندر بانٹ پر کیا تماشے ہوئے اس کے لئے جنرل رائو فرمان علی اور صدیق سالک کی کتابیں دیکھئے۔ یہ ضمنی انتخابات تو زمینی حالات کے باعث منعقد نہ ہو سکے البتہ 30 اکتوبر کو 35 امیدواروں کے بلامقابلہ منتخب ہونے کا اعلان کر دیا گیا۔ ہماری تاریخ میں یہ ضمنی انتخابات کی سب سے بڑی مشق تھی جو ایک مضحکہ خیز انجام کو پہنچی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں دو بڑے ضمنی معرکے ہوئے۔ لائل پور میں مختار رانا کی بہن زرینہ رانا پیپلز پارٹی کے امیدوار افضل احسن رندھاوا سے شکست کھا گئیں۔
19اکتوبر 1975کو پیپلز پارٹی کے سابق گورنر پنجاب اور وزیراعلیٰ غلام مصطفیٰ کھر آزاد امیدوار کی حیثیت سے پیپلز پارٹی کے امیدوار شیر محمد بھٹی سے ہار گئے۔ یہ دونوں الیکشن انتخابی بے قاعدگیوں اور سرکاری وسائل کےبےمحابا استعمال سے مملو تھے۔ اس سے یہ تاثر عام ہو گیا کہ ضمنی انتخابات میں برسراقتدار جماعت کے امیدوار کو شکست دینا کارے دارد ہے۔ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں لاہور کے حلقہ 99میں ضمنی انتخاب کو بہت شہرت ملی تھی کیونکہ آئی جے آئی کے قیام اور آپریشن مڈ نائٹ جیکالز کے پس منظر میں پیپلز پارٹی اور مقتدرہ کی کشمکش سامنے آ چکی تھی۔
جولائی 2018 کے گزشتہ عام انتخابات کے بعد 14 اکتوبر کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی کل 35نشستوں پر ضمنی انتخابات منعقد ہوئے جن میں تحریک انصاف نے بیشتر نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ تعجب انگیز طور پر اس کے بعد ساڑھے تین برس کے عرصے میں برسراقتدار تحریک انصاف کو بیشتر ضمنی انتخابات میں ناکامی ہوئی۔ اپریل 2022میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے علیحدگی کے بعد سے تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اس کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ چند گھنٹوں بعد اس دعوے کی تصدیق یا تردید ہو سکے گی لیکن غالب کا انتباہ فراموش نہ کیجئے۔
جوں غنچہ و گل آفت فال نظر نہ پوچھ
پیکاں سے تیرے جلوہ زخم آشکار تھا
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔