20 جولائی ، 2022
زرداری اور مولانا وغیرہ مفت میں تیس مار خان بن رہے ہیں کہ عمران خان کی حکومت ہم نے گرا دی ،امریکی سازش کا بیانیہ اتنی ہی بڑی بکواس ہے جتنی کہ زرداری کی منصوبہ بندی ۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ عمران خان کو اقتدار میں اسٹیبلشمنٹ لائی تھی۔ اپنی ساکھ داؤ پر لگا کر اسٹیبلشمنٹ نے ان کی پارٹی بنوائی، ان سے دھرنے کروائے، انہیں عدالتوں ، الیکشن کمیشن اور نیب سے بچایا۔
اس کے باوجود عمران خان مرکز اور پنجاب میں حکومت نہیں بناسکتے تھےلہٰذا،باپ پارٹی، قاف لیگ اور ایم کیو ایم کے بازو مروڑ کر ان کے ساتھ اتحاد بالجبر پر مجبور کرایاگیا۔ اس کے بعد بھی ان سے حکومت چل نہیں پارہی تھی اور عمران خان خود کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ سے بل پاس کروانا ہوتا یا پھر اعتماد کے ووٹ وغیرہ کا مرحلہ ہوتا تو وہ ایجنسیوں کے ذریعے ممبران پارلیمنٹ کو بلاتے اور کام چلواتے ۔ تنگ آکر اسٹیبلشمنٹ نے ان کی حکومت کو فراہم کردہ غیرقانونی اور غیرآئینی سپورٹ سے دست کشی اختیار کرلی۔ چنانچہ عمران خان کی حکومت دھڑام سے گر گئی ۔
حکومت گرنے کے بعد اتحادیوں کے پاس دور راستے تھے۔ ایک یہ کہ وہ اسمبلی تحلیل کرکے فوری انتخابات کی طرف آتے اور دوسرا یہ کہ وہ مرکز اور پنجاب میں اپنی حکومت بناتے ۔ تب زرداری صاحب اور مسلم لیگ (ن) کی یہ رائے بنی کہ انہیں فوری الیکشن میں جانے کے بجائے اپنی اتحادی حکومت بنانی چاہئے ۔ زرداری نے اس کیلئے مختلف دلائل تراشے لیکن حقیقت یہ ہے کہ فوری انتخابات سے پیپلز پارٹی گھبراتی ہے۔
وہ سوچتی ہے کہ مرکز اور پنجاب تو دور کی بات اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے بغیر سندھ بھی انہیں مشکل سے واپس ملے گا۔ اسی طرح انہوں نے پرویز الہٰی کو ساتھ ملاکر پنجاب میں بھی باالواسطہ اپنی حکومت بنانے کا منصوبہ بنایا تھا جو آخری وقت میں بوجوہ خراب ہوا۔ تین بڑی جماعتوں نے مگرہوس اقتدار میں نہایت غلط فیصلے کئے اور اپنے عمل سے یہ سبق دیا کہ پچھلے پانچ سال کی مار سے انہوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
مثلاً ان تین بڑی جماعتوں نے آپس میں وزارتوں کی بندربانٹ شروع کردی ۔ تمام اہم مناصب نون لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نے لے لئے۔ مولانا پی ڈی ایم کے صدر تھے اور اصولی طور پر ہونا یہ چاہئے تھا کہ وہ پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس بلا کر زرداری کے ساتھ بیٹھ کر حکومت سازی کرتے لیکن جب سے حکومت ملی ہے تب سے مولانا نے پی ڈی ایم کا کوئی اجلاس نہیں بلایا۔ انہوں نے آفتاب شیرپاؤ کو جائز حصہ دلوایا ، نہ محمود خان اچکزئی کو اور نہ ہی اختر مینگل وغیرہ کو ۔ دوسری طرف زرداری نے اپنے لئے تو سب کچھ حاصل کرلیا لیکن اے این پی ،جو ان کی خاطر پی ڈی ایم سے نکلی تھی اور جس کے ایمل ولی نے بلاول وزیراعظم تک کے نعرے لگوائے کو کوئی اہم وزارت تو کیا ، پختونخوا کی گورنرشپ بھی نہ دلواسکے۔
ادھر عمران خان نے امریکی سازش کا ایک بیانیہ گڑھ لیا لیکن اس ڈھول کو اس قدر پیٹا کہ عام آدمی اس پر یقین کرنے لگا ۔ دوسری طرف حکومت کے پاس کوئی بیانیہ نہیں۔ بیانیہ بنانا تو دور کی بات ، حکومت ملنے کے بعد کبھی یہ لوگ آپس میں بیٹھےہی نہیں۔ تمام اتحادی جماعتوں کی سرگرمیوں کا مرکز ومحور اپنے لئے زیادہ سے زیادہ مناصب سمیٹنا ہے۔ تین ماہ ہوگئے لیکن پختونخوا، بلوچستان، سندھ اور گلگت بلتستان کے گورنروں پر اتفاق نہیں ہوسکا۔ چیئرمین نیب، زرداری صاحب اپنا کوئی نیا جاوید اقبال لگوانا چاہتے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) اپنا چیئرمین نیب چاہتی ہے۔
فرح خان، بشریٰ بی بی ، مانیکا خاندان اور کئی وزرا کے خلاف فائلوں کے انبار لگےہیں ،توشہ خانہ کیس تیار ہے لیکن نیب کا چیئرمین نہ ہونے کی وجہ سے حکومت آج تک ان کے خلاف کیسز دائر نہ کراسکی ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ زرداری صاحب وغیرہ کی ترجیح پی ٹی آئی کے خلاف کیسز بنانے سے زیادہ اپنے کیسز ختم کرانا ہے ۔وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی کی ظفرموج بن گئی ہے ۔
لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ طارق فاطمی جیسے معاونین خصوصی وزیراعظم ہاوس میں بیٹھ کرکیا کررہے ہیں ۔عمران خان جھوٹ پر مبنی امریکی سازش کا چورن اچھی طرح بیچ سکے لیکن حکومت سچ کو بھی کیش نہ کرا سکی۔وہ سیاست سازشی تھیوری کی بنیاد پر کررہے ہیں اور حکومت ناقص میڈیا اسٹریٹجی کی وجہ سے قوم کو یہ سمجھانے میں بھی ناکام رہی کہ عمران خان نے معیشت کس حال میں چھوڑی تھی اور اسے آئی ایم ایف کے کہنے پر مشکل فیصلے کیوں کرنے پڑے ۔ جس کی وجہ سے عمران خان کی ناقص معاشی پالیسیوں کا ملبہ اس پر آگرا۔سب سے زیادہ کھلواڑ خارجہ محاذ پر کیا گیا تھا لیکن وزیر خارجہ بلاول بھٹو جہاز لے کر پوری دنیا کی سیر پر نکلے ۔
اتحادی حکومت کے مزے تولوٹ رہے ہیں لیکن حکومت کا دفاع کرنے نہیں آتے ۔جس پارٹی کو جو وزارت ملی ہے ، وہاں اس نے اپنی دکان لگا رکھی ہے۔ ہر سیاسی فیصلے کیلئے وزیراعظم کو دس طرف سے مشورہ لینا پڑتا ہے۔ لندن سے منظوری کےبعد پھر زرداری کے نخرے اٹھانے پڑتے ہے، پھر مولانا کے ، پھر ایم کیوایم اور باپ کے ۔اس حکومت میں قوت فیصلہ کے فقدان کا یہ عالم ہے کہ یہ آج تک قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی ممبران کے استعفے منظور نہیں کراسکی ۔
اس کی وجہ بھی زرداری صاحب ہیں کیونکہ مسلم لیگ (ن) پر دباؤرکھنے کیلئے پی ٹی آئی کا دروازہ کھلا چھوڑاگیاہے اور وہ مسلم لیگ کو اس بات سے بلیک میل کررہے ہیں کہ اگر ہر معاملے میں ان کی بات نہ مانی گئی تو وہ پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر متبادل بندوبست کرسکتے ہیں۔ حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنانے کے فیصلے کا بھی لوگوں نے برا منایا ۔ لوگوں نے دیکھا کہ زرداری نے اپنے بیٹے کو، شہباز شریف نے اپنے بیٹے کو اور مولانا نے اپنے بیٹے کو وزیر بنا دیا یوں پی ٹی آئی نے ان جماعتوں کی موروثی اور خاندانی سیاست سے متعلق شورمچایا اور پنجاب کے ووٹر نے جو غصہ نکالا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے ۔
پنجاب کے ضمنی انتخابات کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اتحادی قیادت اور وزیروں کی گردنوں میں جو سریا آگیا تھا ، وہ کسی حد تک نکل گیاہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ اب اسٹیبلشمنٹ کو بھی کچھ کرنا پڑے گا۔ وہ یا تو عمران خان کو دوبارہ گلے لگا لے گی یا پھر جواب دینے پر آجائے گی ۔ وہ اگر عمران خان کی گالم گلوچ اور دباو سے بلیک میل ہوگئی تو اس صورت میں باقی جماعتوں کوبھی یہ پیغام ملے گا کہ تابعداری اور دوستی کی بجائے گالم گلوچ اور بلیک میلنگ کا طریقہ موثر ہے چنانچہ وہ بھی پوری قوت کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف میدان میں نکلیں گی۔
اگر الیکشن کی طرف بات جاتی ہے تو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عمران خان کی جھوٹے کہانیوں کے جواب میں وہ سچی کہانیاں بیان کرے گی اور ظاہر ہے یہ صورت حال بھی اس کیلئے نہایت مشکل ہوگی ۔ چنانچہ اب اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنی پوزیشن واضح کرنی ہوگی۔اسٹیبلشمنٹ نے دوبارہ لاڈلے کو لاڈلا بنا دیا(جس کا اگرچہ امکان کم نظر آتا ہے) تو بھی صورت حال واضح ہوجائے گی اور اگر حکومت کا اس طرح ساتھ دینا شروع کیاجس طرح عمران خان کا دیتی رہی تو پھر پی ٹی آئی بکھرجائے گی دونوں صورتوں میں صورت حال واضح ہوجائے گی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔