25 جولائی ، 2022
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان بار ایسوسی ایشن کے ایک سینئر ممبر نے کہا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ ہفتے کے روز لاہور میں کی جانیوالی سماعت کے شارٹ آرڈر کے مطابق حلف اُٹھا لینے والے وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کو ہٹائیں گے تو اس کیلئے سپریم کورٹ کو اپنے ہی سابقہ کئے پر پانی پھیرنا ہوگا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سینئر ممبر طارق محمود خالد ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ہفتے کی سماعت کے دوران ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کے وکیل عرفان قادر نے بالکل ٹھیک کہا کہ سپریم کورٹ کو پاکستان مسلم لیگ (ق) کے 10ووٹ شمار کرنے کیلئے اپنے ہی تین فیصلوں کو کالعدم قرار دینا ہو گا۔
ایک فیصلہ پی ایل ڈی 2018ء سپریم کورٹ 370میں شائع شدہ ہے۔ دوسرا فیصلہ پی ایل ڈی 2018ء سپریم کورٹ 97ہے اور منحرف اراکین کے ووٹ نہ شمار کرنے کا حالیہ فیصلہ بھی نظرانداز کرنا ہو گا۔
اس کے علاوہ نواز شریف کو پارٹی ہیڈ سے فارغ کرنے کیلئے نواز شریف کیس میں سپریم کورٹ کے تین ججوں مسٹر جسٹس ثاقب نثار‘ موجودہ چیف جسٹس مسٹر جسٹس عمر عطاء بندیال اور موجودہ فاضل جج مسٹر جسٹس اعجاز الاحسن نے بی ایل ڈی 2018ء سپریم کورٹ 370جو فیصلہ صادر کیا تھا‘ اُس میں سپریم کورٹ پارٹی ہیڈ کو ہی پارلیمانی پارٹی کا ہیڈ اور کنٹرولر قرار دے چکی ہے۔
اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے مسٹر جسٹس ثاقب نثار کے بھی ایک فیصلے پی ایل ڈی 2018ء 97پر انحصار کیا ہے۔ فیصلے کو یکسو کرتے ہوئے پیرا نمبر پانچ میں پارٹی ہیڈ کا پارلیمانی اُمور کو کنٹرول کرنے کا پھر خصوصی ذکر کیا گیا ہے۔ اس طرح نواز شریف کی مخالفت میں مبینہ طور پر آئین کو زک لگائی گئی‘ پھر حال ہی میں عمران خان کیس میں منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہ کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کر کے آئین کو مضبوط نہیں بنایا‘ اب سپریم کورٹ کے اس مخصوص بینچ کو چیف منسٹر پنجاب کے 22جولائی 2022ء کو ہونیوالے الیکشن پر خوشی نہیں ہوگی اور یہ ناخوشی سپریم کورٹ کے اپنے فیصلوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔
قیام پاکستان سے اب تک پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سیاسی مقدمات کے حوالے سے بیشتر سیاسی مقدمات میں عدلیہ نے عموماً ایسے فیصلے دیئے جن میں مخالفین اُسے فریق قرار دیکر تنقید کرتے رہے۔ اُنہوں نے کہا کہ موجودہ کیس میں عدلیہ نے محبت‘ نفرت‘ خوف یا دبائو سے چیف منسٹر کے الیکشن کو قرار دیا تو سپریم کورٹ نہ صرف اپنے فیصلوں بلکہ ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نزدیک آئین سے کھلواڑ کرنا پڑیگا۔
سپریم کورٹ کا یہ مخصوص بینچ نہ صرف پبلک میں بلکہ خود سپریم کورٹ میں متفقہ قرار نہیں دیا جا رہا۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے جس پارلیمانی سربراہ (ساجد کے خط کا سہارا لیکر) پی ٹی آئی نے پٹیشن دائر کی ہے اُسے چوہدری شجاعت حسین نے اپنی جگہ پارلیمانی پارٹی مختار مقرر ہی نہیں کیا۔
چوہدری شجاعت حسین صدر پاکستان مسلم لیگ (ق) اپنے صاحبزادے چوہدری سالک حسین کے ساتھ لاہور سے اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔ (ق) لیگ کے ذرائع کے مطابق 6رکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس عمر عطاء بندیال نے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کو آرڈر ہفتہ کے روز دیا کہ وہ پیر کو چوہدری شجاعت حسین صدر پاکستان مسلم لیگ (ق) کا اسمبلی میں لہرایا گیا خط لیکر پیش ہوں جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صدر جو ایک اصولی سیاستدان ہیں اور جنہوں نے اپنے بھانجے چوہدری مونس الٰہی تک کو واشگاف الفاظ میں کہہ رکھا ہے کہ وہ اداروں کو گالیاں دینے والے‘ اداروں پر تنقید کرنے والے اور اداروں کیخلاف غلیظ زبان استعمال کرنے والے عمران خان کے ہم نوا وزارت اعلیٰ کے امیدوار کو (ق) لیگ کے ایم پی ایز کا ووٹ نہیں ڈلواسکتے جس کے بعد چوہدری مونس الٰہی نے جیو نیوز کے اینکر پرسن کو ٹیلیفون پر کہا ’’میں ہار گیا ہوں‘ عمران بھی ہار گیا ہے‘ زرداری جیت گیا ہے‘‘۔