بلاگ
Time 25 جولائی ، 2022

معاشی انہدام کا خطرہ اور سیاسی بحران

ہمارے ملک کا معاشی بحران ہر لمحے شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ باہر کی دنیا ہمیں خبردار کر رہی ہے کہ پاکستان کا معاشی ڈھانچہ منہدم ہونے کے قریب ہے ۔ اس کے باوجود پاکستان میں ہر تھوڑے وقفے کے بعد نیا سیاسی بحران پیدا ہو جاتا ہے یا پیدا کر دیا جاتا ہے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ’’ رن آف الیکشن ‘‘ کے بعد سامنے آنے والا نیا بحران اس کی تازہ مثال ہے ۔ کس سے پوچھا جائے کہ یہ پاکستان کس طرف جا رہا ہے یا پاکستان کو کس طرف لے جایا جا رہا ہے ؟

پاکستان کے معاشی انہدام کی جتنی فکر باہر کے لوگوں کو ہے ، اتنی ہمارے اپنے ان لوگوں کو نہیں ہے ، جو اپنی سیاسی قیادت سے پاکستان کو دنیا کی عظیم طاقت بنا دینے کا دعویٰ کرتے ہیں یا پس پردہ بیٹھ کر پاکستان کے مفادات کے تحفظ کے لئے نت نئی حکمت عملیاں بنا رہے ہوتے ہیں ۔ باہر کے لوگوں کو یہ فکر لاحق ہے کہ پاکستان کے معاشی انہدام کے اثرات سے وہ بھی محفوظ نہیں رہیں گے لیکن ہمارے اپنے لوگوں کو کسی بات کی پروا نہیں ہے ۔

 ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر مسلسل گرتی جا رہی ہے ۔ یہ کالم تحریر کرتے ہوئے جو کرنسی ریٹ ہے ، وہ اس کالم کی اشاعت تک پتہ نہیں کیا سے کیا ہو جائے ۔ یہ پیش گوئی نہیں کی جا سکتی کہ اس وقت کسی چیز کی جو قیمت ہے ، وہ اگلے لمحے کیا ہو جائے گی ۔

 پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے نہ صرف ہر چیز مہنگی کر دی بلکہ سماجی تانے بانے بکھیر دیئے ۔ لوگوں میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ اب مہنگی بجلی کے بل ادا کر سکیں ۔ مہنگائی کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا عفریت ، انتشار اور بدامنی کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے ۔ حکومت اپنا بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لئےعالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف ) کے دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے ریلیف پیکیج مانگ رہی ہے اور اس کے لئے اپنے عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کی ہر شرط قبول کونے کے لئے تیار ہے ۔

 ملک کا بڑھتا تجارتی خسارہ اور کئی اسباب کی بناء پر بڑھتے ہوئے قرضے معیشت کی نمو کی قدرتی صلاحیت کو کمزور کر رہے ہیں ۔ بیرونی ممالک خصوصا ًہمارے خطے کے ممالک ہمارے معاشی بحران سے زیادہ خوف زدہ ہیں ۔ ہمارے بظاہر سیاسی حکمراں اور اصل غیر سیاسی حکمران ملک پر سیاسی جنگ مسلط کئے ہوئے ہیں ۔ سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی سے معاشی بحران کی شدت میں تیز تر اضافہ ہو رہا ہے ۔

بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ پنجاب کا حالیہ سیاسی بحران عدلیہ کا پیدا کردہ ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 63 ۔ اے کی تشریح کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے فیصلہ دیا تھا کہ پارٹی سربراہ کی ہدایت سے انحراف کرنے والے کا ووٹ شمار نہیں ہو گا ۔ اس لئے حمزہ شہباز کو دوبارہ ووٹ لینے کا کہا گیا حالانکہ آرٹیکل 63 ۔ اے کی تشریح کرنے والے بینچ کے ایک رکن جسٹس مندوخیل نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ آئین کی یہ تشریح نیا آئین لکھنے کے مترادف ہے ۔ پارٹی سربراہ کی ہدایت سے انحراف کرنے والے رکن پارلیمنٹ کا ووٹ شمار ہو گا اور آئین کے مطابق ووٹ شمار ہونے کے بعد اس رکن کو نااہل ہونے کی سزا دی جاسکے گی ۔

 جسٹس مندوخیل نے باالفاظ دیگر سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا اور اب اسی فیصلے کو بنیاد بنا کر ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی نے تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے وزارت اعلیٰ کے امیدوار پرویز الٰہی کو پڑنے والے 10 ووٹ شمار نہیں کئے ، جو مسلم لیگ (ق( کے 10 ارکان نے اپنے پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی ہدایت سے انحراف کرتے ہوئے دیئے تھے ۔

سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے تحریک انصاف والے بہت خوش ہوئے تھے اور اب اس فیصلے سے وہ ناصرف دکھی اور پریشان ہیں بلکہ اب آرٹیکل 63 -اے کی نئی تشریح کے لئے انہوںنے دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے ۔ کچھ حلقوں کا خیال یہ ہے کہ اس سارے سیاسی بحران کے ذمہ دار عمران خان ہیں ۔ اس کے برعکس کچھ حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت پر سیاسی بحران کی ذمہ داری ڈالنی چاہئے ۔ بعض حلقے ایسے بھی ہیں جو تھوڑا وسیع تر تناظر میں سوچتے ہوئے غیر سیاسی اسٹیبلشمنٹ کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ وسیع تر تناظر میں سوچنے کی ضرورت ہے ۔ کہیں ایسا تو نہیں ہماری غیر سیاسی اشرافیہ ، عدلیہ اور سیاسی جماعتیں غیر دانستہ طور پر ایک بڑے کھیل میں استعمال ہو رہی ہیں؟

اس صورت حال میں ہنگامی بنیادوں پر ملک میں سیاسی استحکام کے لئے کوششیں کرنا چاہئیں اور معیشت کی بحالی کے لیے ایک نیشنل چارٹر ( قومی میثاق ) وضع کرنا چاہئے ۔ اب جو ہونا تھا ، ہو گیا ۔ ملک ان حالات میں فوری طور پر نئے انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے ۔ 

سیاسی استحکام کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ اسمبلیوں کو اپنی مدت پوری کرنے دی جائے لیکن سیاسی استحکام کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ آئین اور قوانین کی غلط تشریح کی جائے ۔ اگر پہلے آئین کے آرٹیکل 63 ۔ اے کی درست تشریح ہوجاتی تو آج سیاسی صورت حال مختلف ہوتی ۔ اب جو بھی فیصلہ کیا جائے ، وہ آئین کے مطابق ہونا چاہئے ۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہر بحران سے پھر ایک نیا بحران پیدا ہو گا ۔

 وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو خلاف ضابطہ قرار دینے کی ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی رولنگ پر سپریم کورٹ کا ازخودنوٹس ایک تاریخی اقدام تھا لیکن آرٹیکل 63 ۔ اے کی تشریح کے حوالے سے تحریک انصاف کی آئینی درخواست پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے فوری اثرات سامنے آ گئے ہیں ۔ پاکستان تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے اب وہ سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔