31 جولائی ، 2022
معیشت آزاد منڈی، سٹے بازوں اور منافع خوروں کے حوالے۔ ’’تو چور، نہیں تو چور‘‘ کے بیانیوں میں سیاست بدنام اور سیاسی حریف دشنام طرازی کا شکار۔ عدلیہ باہم دست درازی میں غرقاب، اسٹیبلشمنٹ معاشی سلامتی کے لئے اضطراری سفارت کاری میں مصروف، روپیہ بے حال، مہنگائی بے لگام اور معاشی دیوالیہ برقرار۔
اس بیچ سیلاب میں ڈوبتے مرتے بے سہارا عوام اور امرا بھیگے موسم میں پکنک پارٹیوں میں مصروف۔ حکمراں اتحاد اپنی ہی سیاسی حماقتوں کے ہاتھوں پشیماں اور شکستہ حال۔ جبکہ تحریک انصاف دو صوبوں میں حکمراں ہوتے ہوئے بھی زناٹے دار حزب اختلاف۔ گلیوں محلوں میں اندھے پیروکار باہم دست و گریباں۔ آج کی خبر تو ہے، کل کی کسی کو نہیں۔ سیاست بھی کیا طلسماتی کھیل ہے جس کا کوئی موسم نہیں، دیکھتے دیکھتے کایا پلٹ جاتی ہے اور بیچارے تجزیہ کار منہ میں انگلیاں دبا کر رہ جاتے ہیں۔
گزشتہ تین چار مہینوں میں کیا سے کیا ہوگیا ۔ ڈوبنے والے، مخالف لہروں کی نذر ہونے کی بجائے بیچ منجھدار سے تیر نکلنے میں کامیاب ہوئے تو جو ڈبونے نکلے تھے اب طوفانی لہروں کی لپیٹ میں ایسے پھنسے ہیں کہ نکل پاتے ہیں، نہ تیر پاتے ہیں۔ سیاست کے اسٹاک ایکسچینج پر اب پی ٹی آئی کا ڈالر اوپر ہی اوپر اور اتحادی حکومت کا روپیہ ہے کہ گرنے سے باز ہی نہیں آرہا۔ ووٹ کو عزت دو والے اسکی بے حرمتی کی راہ پر، جبکہ ملک ڈبونے والے مسیحائی کی دوڑ میں آگے۔
پاکستان کی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اگر کسی نے سیاست کی مبادیات کو دوبارہ سے تحریر کیا ہے تو وہ عمران خان ہیں۔ اسوقت ان کے علاوہ کوئی پاپولسٹ اور سحر انگیز مقبول لیڈر نہیں۔ شریف اور زرداری اب پرانی کتاب کے المیاتی کردار ہیں۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ایوب کی آمریت کو چیلنج کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کی داغ بیل ڈالی تھی اس وقت پاکستان میں گہری طبقاتی و علاقائی تفریق پیدا ہوچکی تھی اور دنیا بھر میں انقلابات کے سلسلے کے ساتھ پوری دنیا کے نوجوان نظام کہن کو ڈھا نے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
مشرقی پاکستان میں قومی آزادی اور مغربی پاکستان میں طبقاتی نجات تاریخ کی محرکہ قوتیں بنیں۔ یوں 1973ء کے آئین والی جمہوریہ وجود میں آئی۔ پھر بھٹو مخالف دائیں بازو کی رجعت پسند قوتیں جنرل ضیاالحق کی سرپرستی میں متحرک ہوئیں اور رد انقلاب کامیاب رہا۔ جنرل ضیا الحق کے طویل مارشل لا میں سیاسی تقسیم بھٹو اور اینٹی بھٹو تھی۔ پھر رد انقلاب کی قوتیں مسلم لیگ میں جمع ہوئیں اور روایتی دکاندار سیاست دان بن کر سامنے آئے جو اینٹی بھٹو ایجنڈے پہ منتخب کروا کر لائے گئے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد عوامی و جمہوری حقوق کی سیاست کا باب تمام ہوا اور پرو بھٹو، اینٹی بھٹو سیاست کا دور قصہ پارینہ ہوا۔ پھر پرو شریف اور اینٹی شریف سیاست کا دور شروع ہوا جس میں سیاسی آئیڈیل اسٹ بھٹو نہ رہا دولت مند سیاستدان آئیڈیل بن کر سامنے آیا۔
شریف ماڈل ریاستی سرپرستی میں پرانے دقیانوسی بازار کی سیاست کا مظہر تھا جسے میاں نواز شریف نے ’’اینٹ اور سرئیے‘‘ کے ترقیاتی ماڈل کی سیاست کا روپ دیا۔ جس طرح بھٹو صاحب ایوب خان کو لات مار کر جنتا کے ہیرو بنے، نواز شریف نے بھی جب مقتدرہ کی پنجالی توڑی تو وہ پنجابی ہیرو بنے۔ لیکن سیاست کے دونوں قطب (بھٹو اور شریف) حوادث زمانہ کی نذر ہوئے۔ پرویز مشرف کی آمرانہ روشن خیال قدامت اور نئے اطلاعاتی انقلاب کے بطن سے ایک اور ستارہ چمکنا تھا جو کہ ظاہر ہے ق لیگ یا گجرات کے چوہدری تو ہو نہیں سکتے تھے جنہیں ن لیگ نے بہ آسانی سائیڈ لائن کردیا۔ پرانے دور کی چپقلشوں میں بجھی سیاست کا ڈراپ سین مشرف کی آمریت مخالف سیاست کے جمہوری تقاضوں کے ہاتھوں ملتوی ہوتا رہا۔ اب دائمی مقتدرہ کے ہاتھ میں کوئی پتا نہ رہا۔
میرے دیرینہ دوست اور سماجی اصلاح کار محترم محمود مرزا نے متبادل سیاست و قیادت کے لیے غیر روایتی سیاست سے ہٹ کر نیچے سے عوامی خدمت سے ابھری رضا کارانہ قیادت کا تھیسز پیش کیا تو ان کے کتابچے کی رونمائی کی تقریب میں مَیں نے پھبتی کسی کہ اس میں سے تو صرف عمران خان ہی نکلتا ہے۔ حالانکہ وہ پی ٹی آئی کی کسی منشور کمیٹی کے روح رواں تھے، میری شرارت پہ دم بخود ہوگئے تھے۔ عمران خان، کرکٹ ہیرو، پھر بڑے انسانی خدمتگار جنہوں نے پوری ایک نسل کو شوکت خانم اسپتال کی تعمیر کرنے کے لئے چندہ مہم پہ لگادیا اور جو زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے ایک بڑی عوامی مہم چلا چکے تھے۔ ابھی سیاست کے پرانے بوسیدہ ماحول میں چمک نہیں پارہے تھے لیکن پرانے سیاسی دور کی جماعتوں کے ناقد کے طور پر سامنے آئے۔ اپنے تیس سالہ ادوار میں پرانے سیاستدان خوب بدنام ہوئے اور نیکو کار عمران خان عوامی توجہ کا مرکز بننا شروع ہوئے۔
خیبر پختونخوا میں طالبان کے بڑھتے اثر و رسوخ اور پنجاب میں دونوں بڑی پارٹیوں کی مقتدرہ سے بیزاری (چارٹر آف ڈیماکریسی) نے اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان میں ایک چمکتا متبادل نظر آیا۔ پھر کیا تھا۔ تمام رکاوٹیں دور ہوتی چلی گئیں۔ لیکن یہ اس وقت ہوا جب پاکستان کی آبادی کی ڈیماگرافی نوجوانوں کے حق میں بدل گئی اور وہ سوشل میڈیا پر چھاگئے۔ پاکستانی معاشرے کے سب سے متحرک نوجوان حصے کے ہیرو بن کر عمران خان نے ساری پرانی سیاسی قوتوں کو چیلنج کردیا اور وہ ڈونلڈ ٹرمپ طرز کی سیاست سے سیاسی منظر پہ چھاگئے لیکن اس فرق کے ساتھ کہ ٹرمپ امریکی مقتدرہ کو چیلنج کرکے سامنے آئے تھے جبکہ عمران خان مقتدرہ کے سہارے اقتدار میں پہنچے۔
جو عوامی چورن عمران نے بیچا وہ دیگر پاپولسٹ لیڈروں کی طرح چوں چوں کا مربہ تھا۔ چوروں سے نجات، احتساب، مدینہ کی آئیڈیل ’’ریاست‘‘ ، دو پاکستان ، فلاحی ریاست اور جدید قدامت پسندی۔ ظاہر ہے جب عمران خان کو عوامی حمایت مل گئی تو وہ کسی کے کاسہ لیس کیوں رہتے۔ پھر کیا تھا۔ قومی خود داری، قوم پرستی اور مذہبی کارڈ نے مل کر دو آتشے کا کام کیا اور جب ایک صفحہ پھٹا تو پھر کیا تھا، عمران اپنے ہی زور پہ قدر آور لیڈر بن گئے جس طرح کبھی نواز شریف بنے تھے۔
لیکن اس فرق کے ساتھ کہ ان کے ساتھ اب جدید زمانے کی قدامت و جدیدیت کی عجب ملغوبہ مڈل کلاس ہے جس کے مرد و زن نوجوان جدید اطلاعاتی انقلاب کے زور پہ ایک ایسے لمپن انقلاب کے داعی ہیں۔جس کا کوئی واضح ہدف ہے نہ بڑا مقصد۔ عجب اتفاق ہے کہ اتحادیوں کی وفاقی حکومت غیر مقبول فیصلے کررہی ہے اور آزاد منڈی اور عالمی مالیاتی اداروں کی اسیر ہے، جبکہ عمران خان خیبرپختونخوا کے بعد اب پنجاب میں احساس پروگرام کو بحال کر کے صحت کارڈ اور راشن کارڈ بحال کرکے مسیحائی سیاست کرنے جارہے ہیں۔ جتنا وقت گزرے گا اتنا عمران خان کی مقبولیت بڑھے گی اور اتحادی جماعتیں عوام سے دور ہوتی جائیں گی۔ عمران خان کے لیے جو کنواں کھودا گیا تھا، اس میں لگتا ہے اتحادی جماعتیں بڑے ہی وثوق سے اوندھے منہ جاگری ہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔