بلاگ
Time 01 اگست ، 2022

سنگین حالات۔ حکومت کو کیا کرنا چاہئے؟

پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم ) اور پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی ) کی اتحادی حکومت کو اپنی آئینی مدت تک برقرار رہنا چاہئے یا فوری عام انتخابات کا انعقاد کرانا چاہئے ؟ یہ وہ سوال ہے ، جس میں حکمراں اتحادی سیاسی جماعتیں خود الجھی ہوئی ہیں ۔

 پی ڈی ایم کی مرکزی قیادت کے حالیہ اجلاس کے بعد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اگرچہ ایک بار پھر واضح کردیا ہے کہ انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے اور ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی مخلوط حکومت اپنی آئینی مدت تک کام کرتی رہے گی لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف اور دیگر کئی رہنما اب بھی اس بات پر دلالت کر رہے ہیں کہ اسمبلیاں تحلیل کرکے فوری انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا جائے کیونکہ ملک کا موجودہ معاشی بحران حل ہوتا نظر نہیں آ رہا اور یہ بحران اتحادی جماعتوں کی رہی سہی سیاسی مقبولیت کو بھی نگل جائے گا ۔ ان حالات میں اتحادی حکومت اور سیاسی جماعتوں کو کیا کرنا چاہئے ؟

اتحادی جماعتوں خصوصاً پاکستان مسلم لیگ (ن) کے جو لوگ حکومت چھوڑنے اور فوری انتخابات کرانے کے حامی ہیں ، ان کے دلائل میں بہت وزن ہے ۔ وہ ’’ ٹریپ تھیوری ‘‘ کی بنیاد پر اپنے دلائل اٹھاتے ہیں۔ان کا کہنا یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے انہیں ٹریپ ( Trap ) کیا ہےیعنی انہیں جال میں پھنسایا ہے ۔ 

سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی تھی ۔ کرپشن بھی عروج پر تھی ۔ معیشت تباہ کر دی گئی تھی اور سب سے اہم بات یہ کہ عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گرتا جا رہا تھا ۔ اس صورت حال میں اس وقت کی اپوزیشن ( موجودہ حکمران اتحادیوں ) کو یہ موقع فراہم کیا گیا کہ وہ عمران خان کی حکومت کو ہٹا سکیں تاکہ بیڈ گورننس اور معاشی بحران کا ملبہ عمران خان پر نہ گرے ۔

وہ لوگ یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ عمران خان کی اتحادی چھوٹی سیاسی جماعتوں نے کسی کے اشارے پر عمران خان کو چھوڑا اور موجودہ حکمراں اتحاد کا ساتھ دیا کیونکہ یہ جماعتیں پہلے بھی کسی کے کہنے پر عمران خان کا ساتھ دینے پر تیا رہوئی تھیں ۔ ان لوگوں کی یہ بھی دلیل ہے کہ عمران خان کی حکومت کو اگرچہ آئینی طریقہ سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ ہٹایا گیا لیکن اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی طرف سے تحریک عدم اعتماد کو خلاف ضابطہ قرار دینے کی رولنگ پر عدلیہ کا بہت سرعت کے ساتھ فعال کردار بھی ایک سوالیہ نشان ہے ۔ ا

ن لوگوں کے خیال میں کسی کو اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے کہ آئین کی بالادستی کیلئے عدلیہ آگے آئی ۔ ان لوگوں کے بقول یہ بھی عمران حکومت کو ہٹانے کے منصوبے کا حصہ ہے ۔ اس بات کی دلیل میں وہ عدلیہ کے موجودہ کردار اور فیصلوں کا حوالہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ منصوبے کے تحت عمران خان کو دوبارہ سیاسی مقبولیت حاصل ہو گئی ہے اور اتحادی سیاسی جماعتیں سیاسی طور پر بہت زیادہ نقصان میں جا رہی ہیں ۔ اس لئے حکومت فوری طور پر الیکشن کرائیں ۔

 پاکستان تحریک انصاف کے لوگ بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پی ڈی ایم ’’ ٹریپ ‘‘ ہوئی لیکن وہ بھی یہ کہتے ہیں کہ یہ ٹریپ اسٹیبلشمنٹ کا نہیں بلکہ آصف علی زرداری کا ہے ۔ پی ڈی ایم اور پی پی پی میں ایک مضبوط حلقہ ایسا بھی ہے ، جو اس ’’ ٹریپ تھیوری ‘‘ سے اتفاق نہیں کرتا۔یہ حلقہ اس بات سے ضرور اتفاق کرتا ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ عالمی اسٹیبلشمنٹ بھی عمران خان کی پشت پناہی کر رہی ہیں اور انہوں نے اپنی دانست کے مطابق منصوبے کا یہ اسکرپٹ تیار کیا ہو گا کہ وہ اگلے عام انتخابات سے پہلے عمران خان پر سے ، بیڈ گورننس ، کرپشن اور ملک کو تباہی کی طرف دھکیلنے کے تمام الزامات دھل جائیں اور وہ پہلے سے زیادہ سیاسی مقبولیت کے ساتھ اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کریں لیکن اس اسکرپٹ میں عمران خان کی مخالف سیاسی جماعتوں کو پیش قدمی کیلئے جو موقع فراہم کیا گیا تھا ، اسے ضائع نہیں کرنا چاہئے تھا ۔ 

سیاست میں بھی جنگی حکمت عملی کارفرما ہوتی ہے ۔ اس حلقے کی دلیل یہ ہے کہ ٹریپ اتحادی جماعتیں نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ اپنے اندرونی تضادات کی وجہ سے ہوئی ہے ۔ اس حلقے کے خیال میں اگر عمران خان حکومت کو نہ گرایا جاتا تو عوامی مقبولیت کھو دینے کے باوجود عمران خان حکومت میں رہتے ہوئے آئندہ عام انتخابات کا مینڈیٹ چھین لینے کی صلاحیت رکھتے ۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان خو د اقتدار چھوڑنا نہیں چاہتے تھے اور وہ آج تک اپنی پشت پناہی کرنے والوں پر خود بھی تنقید کر رہے ہیں اور اپنے حامیوں کے غیظ و غضب کا بھی انہیں نشانہ بنوارہے ہیں ۔ حکومت میں رہتے ہوئے عمران خان کیلئے انتخابات جیتنا جس قدر آسان ہوتا ہے ، اب اس قدر آسان نہیں ہو گا ۔

مولانا فضل الرحمن نے پی ڈی ایم کے حالیہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں یہ بات بتا کر سب کو حیرت زدہ کر دیا کہ پی ڈی ایم کی قیادت نے ’’ مفاہمت ‘‘ کی حکمت عملی سے اتفاق نہیں کیا ہے اور کہا ہے کہ مفاہمت سے انہیں بہت نقصان ہوا ہے ۔ مولانا نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ کس کے ساتھ مفاہمت سے نقصان ہو رہا ہے لیکن عام فہم یہی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کی بات کر رہے ہوں گے ۔ کیا پی ڈی ایم کی قیادت اس سوال کا جواب دے سکتی ہے کہ کیا وہ مکمل اور فیصلہ کن لڑائی لڑ سکتی ہے ؟

دوسرے حلقے کا مؤقف معروضی اور جدلیاتی طور پر درست ہے کہ اگر سیاسی پیش قدمی کا موقع ملے تو اسے ضائع نہیں کرنا چاہئے ۔مفاہمت بھی ایک سیاسی حکمت عملی ہے اور سیاسی طاقت کا بھرپور مظاہرہ بھی سیاسی حکمت عملی ہے ۔ اس حلقے کی یہ دلیل بھی بہت وزنی ہے کہ موجودہ حکومت کو اس لئے ناکام کیا جائے کہ ’’ ٹریپ ‘‘ والا منصوبہ توقع کے برعکس نتائج کا حامل ہو سکتا ہے ۔

 اس کے باوجود موجودہ حکومت نے اس مرحلے پر ’’ سرنڈر ‘‘ کیا تو اتحادی جماعتیں ہونے والے سیاسی نقصان کا ازالہ طویل عرصے تک نہیں کر سکیں گی ۔ لہٰذا آئینی مدت تک حکومت کو برقرار رہنا چاہئے اور بہتری کیلئے کوششیں کرنا چاہئیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اتحادی کیا فیصلہ کرتے ہیں ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔