پاکستان اور سری لنکا میں مماثلت

گزشتہ کئی دنوں سے فیڈریشن، کراچی چیمبر اور بزنس کمیونٹی کے متعدد لیڈروں نے ملک کی معاشی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان بھی سری لنکا کی طرح دیوالیہ ہونے جارہا ہے۔ مجھ سے بھی ٹی وی چینلز پر پوچھا جارہا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کرگیا تو کیا ہوگا؟ اس تناظر میں، میں پاکستان اور سری لنکا کے معاشی بحران کا موازنہ پیش کرنا چاہوں گا۔

سری لنکا ،جو ہم سے ایک سال بعد آزاد ہوا، نے 12 اپریل 2022ء کو زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور 51 ارب ڈالر کے قرضوں میں سے 7ارب ڈالر قرضوں کی عدم ادائیگی کے باعث دیوالیہ ہونے کا اعلان کردیا جس سے 2کروڑ آبادی کے ملک کےعوام کو بجلی، پیٹرول، غذائی اجناس، ادویات اور بنیادی ضروریات کی اشیاء کی شدید قلت کا سامنا ہے، گزشتہ ایک سال میں سری لنکن کرنسی کی قدر میں 114 فیصد کمی آئی۔ قرضوں کی ادائیگیوں اور تجارتی خسارے کی وجہ سے سری لنکا کے زرمبادلہ کے ذخائر ایک ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے تھے۔ 

سری لنکا کی معیشت کا زیادہ تر انحصار سیاحت پر ہے لیکن 2019ء میں ایسٹر پر ایک شدت پسند تنظیم کے خودکش دھماکے میں سینکڑوں افراد کی ہلاکت سے سری لنکا کی سیاحت کو شدید نقصان پہنچا جبکہ رہی سہی کسر کورونا وبا اور روس یوکرین جنگ نے پوری کردی۔ سری لنکا کی معیشت صرف سیاحت کے نقصانات سے دیوالیہ نہیں ہوئی بلکہ حکمرانوں کے غیر دانشمندانہ فیصلوں، کرپشن، ناقابل برداشت قرضوں اور موروثی سیاست نے بھی ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

 سری لنکا کے سابق صدر کوٹابایا راجہ پکسے نے اقتدار میں آنے سے قبل عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ VAT ٹیکس کم کردیں گے اور ملک میں آرگینک فوڈ کو فروغ دیں گے اور برسراقتدار آتے ہی انہوں نے VAT ٹیکس میں کمی اور فرٹیلائزر کی امپورٹ پر پابندی لگادی جس سے ریونیو اور فصلوں کی پیداوار میں کمی ہوئی اور سری لنکا کو بھی ہماری طرح غذائی اجناس امپورٹ کرنا پڑی جس سے تجارتی خسارہ بڑھتا چلاگیا۔ معاشی ماہرین کے مطابق حکومتی بدانتظامی، ناقابل برداشت قرضے اور ٹیکسوں میں کمی نے بحران کو مزید سنگین کردیا جبکہ انٹرنیشنل ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی طرح سری لنکا کی عالمی ریٹنگ کم کردی اور پھر بیرونی قرضوں اور حکومتی بانڈز کی عدم ادائیگی کے باعث بالاخر سری لنکا دیوالیہ ہوگیا۔ سری لنکا کی معیشت تباہ ہونے کی کچھ سیاسی وجوہات بھی ہیں۔ 

سری لنکا میں کئی عشروںسے حکمرانی صدر راجہ پکسے کے خاندان کی لونڈی تھی۔ راجہ پکسے 2004ء میں وزیراعظم اور 2005ء میں صدر بنے جبکہ ان کے 3بھائی بھی طویل عرے تک اقتدار پر قابض رہے، ایک بھائی وزیراعظم، دوسرا بھائی پارلیمنٹ کا اسپیکر اور تیسرا بھائی کابینہ میں وزیر خزانہ تھا لیکن عوام کے شدید ردعمل پر ان سب کو ملک سے فرار ہونا پڑا اور 5مرتبہ وزیراعظم رہنے والے رانیل وکرماسنگھے سری لنکا کے نئے صدر منتخب کئے گئے۔

22 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک پاکستان کو بھی آج شدید معاشی بحران کا سامنا ہے اور ہمارے موجودہ حالات بھی سری لنکا کی طرح سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ سری لنکا کے قرضے جی ڈی پی کے119فیصد ہوگئے تھے جبکہ پاکستان کے قرضے جی ڈی پی کے 88فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان میںسری لنکا کی طرح خسارے میںچلنے والے حکومتی ادارے گنجائش سے زیادہ سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے قومی خزانے پر ایک بوجھ ہیں۔ ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ کیا ہم بھی وہی غلطیاںتو نہیں دہرا رہے ہیں جو سری لنکا سے سرزد ہوئیں؟ پی ٹی آئی حکومت نے اپنے آخری دنوں میں مقبولیت کیلئے ایمنسٹی اسکیم کا اعلان، پیٹرول، بجلی اور ٹیکسوں میں کمی کرکے ملکی معیشت کو خطرے میں ڈال دیا اور بعد میں IMF کے کہنے پر موجودہ حکومت نے بجلی اور پیٹرولیم مصنوعا ت کی قیمتوں میں اضافہ کیا لیکن مارچ سے جون 2022ء تک قومی خزانے کو 500 ارب روپے کا نقصان ہوچکا تھا۔ زراعت کے شعبے کو نظر انداز کرکے ہم آج 9ارب ڈالر کی زرعی اجناس امپورٹ کررہے ہیں جو پہلے ایکسپورٹ کرتے تھے۔

 سستی متبادل انرجی کو نظر انداز کرکے ہم 14 ارب ڈالر کے فرنس آئل سے مہنگی بجلی پیدا کررہے ہیں جبکہ ہمارے بیرونی قرضے سری لنکا سے دگنے یعنی 129 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں، سری لنکا کی طرح ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہورہی ہے جس سے افراط زر CPI 25.2 فیصد اور SPI 37.68 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔

پاکستان کی ابتر معاشی صورتحال اور سیاسی عدم استحکام نے ملک کو دیوالیہ ہونے کے قریب لاکھڑا کیا ہے۔ پاکستانی روپیہ گرکر 246روپے کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا ہے اور گزشتہ ایک سال میں روپے کی قدر میں تقریباً 52فیصد کمی آئی ہے جبکہ بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر 8ارب ڈالر صرف ایک مہینے کی امپورٹ کیلئے رہ گئے ہیں اور پاکستان کو بھی دسمبر 2022ء میں ایک ارب ڈالر سکوک بانڈز کی ادائیگی کرنی ہے جن کی عالمی مارکیٹ میں قیمت گرکر آدھی سے بھی کم ہوگئی ہے۔ 

موجودہ سیاسی اور معاشی بحران اور ملکی سلامتی کے مدنظر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے حکومت اور اپوزیشن کو مذاکرات کا مشورہ دیا ہے جس میں اکتوبر 2022ء تک عام انتخابات اور ملکی معیشت سنبھالنے کیلئے ایک متفقہ حکمت عملی پر زور دیا گیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکہ سے IMF کے فنڈز کے جلد اجراء کی بات کی ہے تاکہ روپے کی قدر کو استحکام مل سکے۔پاکستانی سیاستدانوں کو سری لنکا کی صورتحال سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور سیاسی اختلافات کو طول دینے کے بجائے ملکی مفاد کی خاطر مسائل کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہئے تاکہ موجودہ سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ہوسکے ورنہ پاکستان جو ایک نیوکلیئر اسٹیٹ ہے، دیوالیہ ہونا برداشت نہیں کرسکتا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔