Time 04 اگست ، 2022
بلاگ

بلاول کی ٹانگیں توڑوں گی!

وزیراعلیٰ سندھ کے دائیں جانب سسٹرمیری جبکہ بائیں جانب 3 خواتین کے درمیان میں موجود سسٹر برکمین
وزیراعلیٰ سندھ کے دائیں جانب سسٹرمیری جبکہ بائیں جانب 3 خواتین کے درمیان میں موجود سسٹر برکمین

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی باتوں اور اقدامات سے تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کی ٹانگیں کانپیں یا ایک درجہ بڑھنے سے کانپیں ٹانگیں، ایک خاتون شخصیت ایسی ہے جس کی عمر تو تقریباً  90 برس ہے مگر وہ بلاول بھٹو کی ٹانگیں توڑنے کیلئے تُلی بیٹھی ہیں۔

یہ خاتون سسٹرمیری ہیں جو کراچی میں کانونٹ جیسز اینڈ میری کی طویل عرصے تک پرنسپل رہی ہیں۔ ان کی ساتھی سسٹر برکمین ہیں جن کی عمر تقریباً سو برس ہونے کو آئی ہے، سسٹر برکمین کی خاص بات یہ ہے کہ وہ مسلم ممالک کی پہلی خاتون وزیراعظم اور پاکستان کی کم عمر ترین اور ملکی سطح پر دوسری منتخب وزیراعظم بے نظیربھٹوکی ٹیچرز میں سے ایک رہی ہیں۔

اس ذکر سے پہلے کہ سسٹر میری آخر اس بے نظیربھٹو کے بیٹے بلاول بھٹوکے درپے کیوں ہیں؟ یہ جاننا ضروری ہے کہ بے نظیربھٹو کا کانونٹ جیسز اینڈ میری سے تعلق کتنا گہرا تھا؟

کانونٹ جیسز اینڈ میری کراچی —فوٹو:نسیم حیدر
کانونٹ جیسز اینڈ میری کراچی —فوٹو:نسیم حیدر

کانونٹ اسکولوں کی خاص بات یہ ہے کہ ملک کے دیگر نجی اسکولوں کے مقابلے میں یہاں تعلیم کا معیار اب بھی کہیں بہتر ہے، فیس تقریباً ایک تہائی کم ہے اور سب سے بڑھ کر یہ بات کہ بچہ امیر ہویا غریب ،تفریق نہیں کی جاتی۔ پسماندہ طبقے کے بچوں میں کہیں احساس کمتری نہ ہوجائے اس لیے سفید یونیفارم ہوتا ہے،اسکول کا بستہ ہی نہیں پینسل باکس بھی سادہ اور یک رنگا ہوتا ہے۔ والدین کو یہاں تک تاکید کی جاتی ہے کہ نئی پینسل کے دو حصے کرلیں تاکہ بچے بڑی اور چھوٹی پینسل کا فرق تک محسوس نہ کریں،یعنی اسٹیٹس کے بجائے تمام تر توجہ تعلیم پر مرکوز رہے۔ 

لڑکیوں کو اس قدر اہمیت اور اعتماد دیا جاتا ہے کہ لڑکے ان پر رشک کریں۔ یہی وجہ ہے کہ ان اسکولوں میں داخلے کے لیے خلقت ٹوٹ پڑتی ہے،چونکہ یہ اسکول ایک شہر میں اپنی برانچز نہیں بناتے اسلیے ہر سال انتہائی محدود داخلے ہوتے ہیں ۔جن خوش نصیبوں کو کنڈرگارٹن میں داخلہ مل جائے وہ او،اے لیول کیے بنا اسکول چھوڑتے نہیں۔

صاحب حیثیت زمیندار اور طاقت کے ایوانوں میں قدرت کے حامل ذوالفقار علی بھٹو نے شاید انہی خوبیوں کی وجہ سے بیٹی کے لیے اس اسکول کا انتخاب کیا تھا۔ گھر اور اسکول کی یہی تربیت بھی تھی جس نے بے نظیربھٹو کو آکسفورڈ یونین کی صدر بنایا اور لیاری جیسے علاقوں کی تنگ گلیوں میں رہنے والی خواتین کے گلے میں بانہیں ڈال کر ان کی خوشیوں اور غموں میں آخری دم تک شریک رکھا۔

بے نظیر بھٹو 1953 میں پیدا ہوئیں اور یہ اسکول ایک برس پہلے ہی قائم کیا گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا گھر جسے اس کے نمبر یعنی 70 کلفٹن کے نام سے جانا جاتا ہے،اس اسکول کے بالمقابل واقع ہے۔ بھٹو کی پنکی سڑک عبور کر کے اسکول کی اس نئی عمارت میں پڑھنے آتیں۔ یہاں کی ٹیچرز اس قدر اعلیٰ اور شفیق تھیں کہ کمسن بے نظیر کا اسکول سے لگاؤ اور گہرا ہوگیا۔

بھٹو صاحب کو وزارت ملی اور اسلام آباد میں قیام کرنا پڑا تو  بے نظیربھٹو کو اسی کانونٹ جیسز اینڈ میری کی مری برانچ میں داخلہ دلوا دیا گیا۔ پہاڑوں کے دامن اور درختوں کے جھرمٹ میں واقع مری کا یہ سی جے ایم اسکول ایک پُرشکوہ عمارت میں قائم تھا۔ نیا اسکول اور ٹیچرز بھی بے نظیر کو پسند آئیں مگر بھٹو کی لاڈلی بیٹی کو  یہاں ہاسٹل میں رہنا پڑا۔ یہاں کا ماحول کسی بھی صورت 70 کلفٹن کی جگہ نہیں لے سکتا تھا۔

بے نظیر چاہتی تھیں کہ وہ کراچی والے کانونٹ ہی میں پڑھیں جہاں انکی پرانی ٹیچرز تھیں،سہیلیاں بھی اور سامنے اپنا گھر بھی مگر بھٹو صاحب چاہتے تھے جہاں وہ ہوں وہیں بے نظیر۔ باپ کی وجہ سے بے نظیر بھی زیادہ اصرار نہ کرسکیں۔

سسٹر برکمین— فوٹو:فائل
سسٹر برکمین— فوٹو:فائل

چند برسوں پہلے مجھے سسٹر برکمین کے انٹرویو کا موقع ملا جو اُس وقت جونیئر سیکشن کی پرنسپل تھیں۔ میں نے بے نظیر بھٹو کا ذکر کیا تو ان کی آنکھوں میں ایک چمک آئی، بہت خوشدلی سے کہنے لگیں کہ بے نظیر پڑھاکو اور ذہین لڑکی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو جب وزیر خارجہ بنے تو اپنی بیٹی کو پڑھنے کے لیے دانشوروں کی کتابوں پر کتابیں بھیجتے تھے اور خطوط میں عالمی صورتحال سے آگاہ رکھتے تھے۔

سسٹر برکمین نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ آنکھیں نم ہوگئیں،چہرہ بجھ سا گیا اور آہ بھر کر خاموش ہوگئیں،صورتحال میر تقی میر کے اس شعر کے مصداق تھی کہ

جب نام تیرا لیجیے تب چشم بھر آوے

اس زندگی کرنے کو  کہاں سے جگر آوے

اپنی زندگی کو چرچ اور اس سے جڑے اسکول کی خدمت کیلئے وقف کرنے والی سسٹر برکمین کے لیے بے نظیر سمیت اسکول کی ہر طالبہ چھوٹی بہن جیسی تھی۔

سسٹر نے خود کو سنبھالا اور بولیں 'میں نے بے نظیر کو پڑھایا تو نہیں مگر اُس دور میں ٹیچر تھی،چونکہ بورڈنگ اسکول تھا، اس لیے ہر طالبہ سے ملاقات ہوتی اور اس کا خیال رکھا جاتا تھا۔ بے نظیر کی ذہانت کی وجہ سے ہم سمجھتے تھے کہ یہ ستارہ ضرور چمکے گا'۔

لمبی سانس لی اور ہاتھ ملتے ہوئے بولیں،'اس روشن ستارے کو ایسے بجھا دیا جائے گا،یہ توگمان بھی نہ تھا'۔

میں نے پوچھا کہ دوسرا عشرہ ہونے کو آیا، بلاول بھٹو پاکستان میں ہیں،اکثر کراچی میں ہوتے ہیں،بلاول ہاؤس بھی اسکول سے چند سو میٹر دور ہے، کبھی بلاول کو بے نظیر بھٹو کے اس اسکول کی یاد آئی؟ اس دور کی آپ واحد ٹیچر ہیں جو حیات ہیں، کبھی آپ سے ملنے آئے؟ وہ مسکرائیں،جواب نہیں دیا۔

مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ بات سسٹر برکمین کی کمزوری تھی۔اس سے ان کے دل کو چوٹ لگتی تھی۔ وہ جب بھی اپنی چہیتی اسٹوڈنٹ بے نظیر کا ذکر کرتیں تو ان کی قریب ترین ٹیچر پوچھا کرتی تھیں کہ اگر آپ بے نظیر کو اتنا ہی چاہتی ہیں تو بلاول آپ سے ملنے ابتک کیوں نہیں آئے؟

سسٹرمیری جو سینیئر اسکول کی پرنسپل تھیں اور سسٹر برکمین کی تقریباً ہم عمر اور سہیلی بھی، وہ بات کوٹالنے کیلئے کہتیں 'بلاول آئے گا تو اس کی ٹانگیں توڑ دوں گی کہ اتنی دیر کیوں کی؟

بلاول نے دیر تو کردی کیوں کہ پاکستان میں ایک عمر گزار کے سسٹربرکمین اور سسٹرمیری دونوں ہی عمر کا آخری حصہ بتانے کے لیے دو برس پہلے واپس برطانیہ جاچکی ہیں۔ بہت دیر اس لیے نہیں کی، کیونکہ دونوں نہ صرف حیات ہیں بلکہ بلاول کی ٹانگیں توڑنے کیلئے تیار بھی ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔