Time 08 اگست ، 2022
بلاگ

کیا پی ٹی آئی پر پابندی لگنی چاہئے؟

ممنوعہ غیر ملکی فنڈنگ کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی طرف سے دائر کردہ کیس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جو فیصلہ دیا ہے ، اس کے بعد اس بحث کا آغاز ہو گیا ہے کہ پی ٹی آئی پر بحیثیت سیاسی جماعت پابندی لگنی چاہئے یا نہیں ؟ کچھ حلقوں کی یہ رائے ہے کہ پی ٹی آئی ایک مقبول سیاسی جماعت ہے ۔

لہٰذا اس پر پابندی لگانے کا عمل پاکستانی سیاست کے لئےنقصان دہ ہو گا ۔ موجودہ حکمران اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں اور ان کے حامی حلقوں کی رائے اس کے برعکس ہے ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنے دیا جائے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے یا کیا ہو سکتا ہے ؟

وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی کابینہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 ء کے تحت کارروائی کی جائے گی اور عاشورہ کے بعد وفاقی حکومت سپریم کورٹ کو ایک ڈیکلیئریشن بھیجے گی ۔ اس کے ساتھ ساتھ وفاقی کابینہ نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ فارن فنڈنگ کیس کی تحقیقات وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے ) سے بھی کرائی جائے گی ۔ 

وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء اور پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2017 ء کے تحت اور آئین و قانون کے مطابق وفاقی حکومت اس معاملے پر کارروائی کرنے کی پابند ہے ۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے پی ٹی آئی ایک غیر ملکی امداد لینے والی پارٹی ڈکلیئر ہو چکی ہے ۔ وفاقی حکومت نے اگرعاشورہ کے بعد سپریم کورٹ کو ڈیکلیئریشن بھیج دیا تو پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا قانونی عمل شروع ہو جائے گا ۔

حتمی فیصلہ تو سپریم کورٹ کو کرنا ہے اور فیصلہ کوئی بھی ہو ، اس کے اثرات بہت گہرے ہوں گے ۔ جو حلقے یہ رائے دے رہے ہیں کہ پی ٹی آئی سمیت کسی بھی مقبول سیاسی جماعت پر پابندی عائد نہیں ہونی چاہئے ، ان کے دلائل میں بہت وزن ہے ۔ وہ ماضی میں کچھ سیاسی جماعتوں پر پابندی کے مضر اثرات کا حوالہ دیتے ہیں ۔ وہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اور نیشنل عوامی پارٹی ( نیپ) پر پابندی کا خاص طور پر ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان پارٹیوں پر پابندی سے پاکستان کی پولیٹیکل ڈائنامکس تبدیل ہو کر رہ گئی ۔ ان پارٹیوں پر پابندی نہ لگائی جاتی تو آج پاکستان کی سیاست کا منظر نامہ بالکل مختلف ہوتا ۔

 ان پارٹیوں پر پابندی لگنے سے پاکستان میں ترقی پسندانہ اور قومی جمہوری رحجانات کو نقصان پہنچا اور انتہا پسندی کی سیاست کو فروغ حاصل ہوا ، جس کی وجہ سے پاکستان کو ایک مستحکم جمہوری ریاست بنانے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا ۔ ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پی ٹی آئی پر اگربحیثیت سیاسی جماعت پابندی عائد ہو گئی تو پھر دوسری سیاسی جماعتوں پر بھی پابندی لگانے کا راستہ کھل جائے گا ۔ اگرچہ پاکستان میں کئی انتہا پسند تنظیموں پر پابندی عائد ہے اور وہ شاید درست بھی ہے لیکن اعتدال پسند سیاسی جماعتوں پر پابندی کے عمل کا آغاز ہوا تو پھر اس کی کوئی انتہا نہیں ہو گی ۔ اس سے جو سیاسی خلاء پیدا ہو گا ، وہ یقینی طور پر ایسی انتہا پسند تنظیمیں پُر کریں گی ، جن میں اس وقت کالعدم تنظیموں کے لوگ نام بدل کر کام کر رہے ہیں ۔

دوسری طرف جو حلقے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے حق میں ہیں ، ان کے دلائل بھی کمزور نہیں ہیں ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ختم کرنے کی ہرممکن کوشش کی گئی ،ایک متنازع عدالتی فیصلہ کے ذریعے پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی ۔ اس وقت بھی پاکستان کے بعض حلقوں نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک مقبول سیاسی لیڈر ہیں ، انہیں پھانسی دینے سے پاکستان کو بہت بڑا سیاسی نقصان ہو گا ۔ 

کئی عالمی رہنماوں نے بھی اس وقت کےحکمران جنرل ضیاء الحق سے اپیل کی تھی کہ پاکستان کے بہتر سیاسی مستقبل کے لئے بھٹو کی سزا ختم کر دی جائے لیکن ضیاء الحق نے کسی کی بات نہیں مانی ۔ ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل بھی پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کی کوششوں کا حصہ تھا ۔ ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک اور متنازع عدالتی فیصلے کے ذریعے ایک اور مقبول سیاسی لیڈر میاں محمد نواز شریف کو محض اس لئے تاحیات نااہل کر دیا گیا کہ انہوںنے اپنے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہ لینے کے بارے میں نہیں بتایا تھا ۔ 

وہ اب پارٹی کے سربراہ بھی نہیں رہے ۔ ان حلقوں کے بقول یہ بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ختم کرنے کی ایک کوشش ہے ۔ اب جبکہ پی ٹی آئی کی طرف سے ممنوعہ فنڈنگ لینے کا الزام ثابت ہو چکا ہے اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان صادق اور امین بھی نہیں رہے تو ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہونی چاہئے ۔ ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف الیکشن کمیشن میں کیس حکومت نے نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے اپنے بانی رکن نے کیا تھا تو اس میں کسی اور کا کیا قصور ہے ۔ حکومت تو آئین اور قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی پابند ہے ۔

وفاقی حکومت کا ڈیکلیئریشن سپریم کورٹ کو موصول ہونے کے بعد ساری نظریں عدلیہ پر ہوں گی،یہ کیس پاکستان کی تاریخ کا ایک اور اہم ترین کیس ہو گا ، جس کا کوئی بھی فیصلہ پاکستان کی مستقبل کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرے گا ۔ پی ٹی آئی کو چاہئے کہ وہ اپنے قانونی دفاع پر توجہ دے ۔ پی ٹی آئی کے پاس اپنے قانونی دفاع کے کئی راستے ہیں ۔ کیس سپریم کورٹ میں جانے سے پہلے وہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کسی بھی ہائیکورٹ میں چیلنج کر سکتی ہے،ہائیکورٹ میں بھی وہ اپنا قانونی دفاع کرنے پر توجہ دے ۔ پھر بھی اگرمعاملہ سپریم کورٹ جاتا ہے تو بھی پی ٹی آئی کے پاس اپنے قانونی دفاع کے مواقع موجود ہیں ۔ پی ٹی آئی اگر عوامی دبائو سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کی کوشش کرے گی اور عدلیہ کو آزمائش میں ڈالے گی تو یہ بات پاکستان کے سیاسی اور عدالتی نظام دونوں کے لئے نقصان دہ ہو گی ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔