11 اگست ، 2022
کپتان نے ضمنی انتخابات کیلئے کھلاڑیوں کو میدان میں اُتارنے کے بجائے قومی اسمبلی کے 9حلقوں سے خود الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرکے ’’رامائن‘‘کے بنیادی اساطیری حریف کردار ’’راون‘‘کی یاد دلادی ہے جس کے 9سر تھے ۔لنکا کا راجہ راون جسے منفی کردار میں پیش کیا جاتا ہے ،وہ بہت طاقتور تھا اور اس کا خیال تھا کہ مخالفین کیلئے وہ اکیلا ہی کافی ہے۔
ایودھیا کے شہزادے رام کو اس کی تاج پوشی سے پہلے اس کے والد سوتیلی ماں کے کہنے پر سلطنت سے نکال دیتے ہیں تو وہ اپنی اہلیہ سیتا اور بھائی لکشمن کے ساتھ جنگلوں کی طرف نکل جاتےہیں ۔یہاں بدروحوں اور عفریتوں کا راجہ راون رام کی بیوی سیتا کو اُٹھا کر لے جاتا ہے۔سب یہی سوچتے ہیں کہ شکتی مان راون کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا مگر رام اپنی بیوی کو بچانے کیلئےاس کی لنکا میں گھس جاتے ہیں ۔قصہ مختصر یہ کہ اس یُدھ میں راون کو شکست ہوتی ہے اور وہ مارا جاتا ہے۔
جس دن راون مارا گیا،آج بھی اس دن کی مناسبت سے دوسہرہ منایا جاتا ہے اور اس موقع پر کئی سر والے راکھشش راون کا پتلا بنا کر جلایا جاتا ہے۔ روایات کے مطابق رام 20دن بعد ایودھیا آئے اور یہاں کامیابی کا جشن منایا گیا۔اس لئے دوسہرہ کے 20دن بعد دیوالی منائی جاتی ہے۔یہاں نہ تو کوئی ’’رام ‘‘ہے اور نہ ہی کوئی ’’راون‘‘۔البتہ جب سیاسی اکابر اپنی جدوجہد کو ’’رام لیلا‘‘بنا کر پیش کرتے ہیں اور انتخابی معرکوں کو حق و باطل کی جنگ قرار دیا جاتا ہے تو پھر اس طرح کے تاریخی کرداروں کا زیرِبحث آنا ضروری ہوجاتا ہے ۔یوں توکرانتی کاری کپتان بھی بہت شکتی شالی ہیں اور انہیں اپنے عقیدت مندوں کا انتم وشواس بھی حاصل ہے مگر شاید انہیں اپنے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں پر بھروسہ نہیں ۔یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی سیاست کے تضادات کے باعث کھلاڑی انتخابی دنگل میں اُترنے سے گریز پا ہوں ۔
آپ جب قومی اسمبلی کی رُکنیت سے مستعفی ہوچکے ہوں تو ایک بار پھر کوئے یار میں جانے اور نئی چوٹ کھا کر واپس آنے سے کیا حاصل؟انتخابی مہم چلانے پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں جب امیدواروں کو معلوم ہو کہ بلے کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑ کر جیت بھی گئے تو ایوان کا حصہ نہیں بن سکیں گے تو پھر کوئی یہ حماقت کیوں کرے؟شاید یہی وجہ ہے کہ کپتان نے 9حلقوں سے تن تنہا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔اگرچہ قومی اسمبلی کی 11نشستیں خالی ہوئی ہیں مگر ان میں سے 2مخصوص نشستیں ہیں جن پرالیکشن نہیں ہورہا ورنہ کپتان اپنی ٹیم کو پویلین میں بٹھا کر اکیلے ہی 11کھلاڑیوں کی جگہ لینے کو تیار ہوجاتے۔
پاکستان میں ایک سے زیادہ حلقوں سے الیکشن لڑنے کی روایت نئی نہیں ۔ذوالفقار علی بھٹو نے بیک وقت دو حلقوں سے انتخابات میں حصہ لیا ۔محترمہ بینظیر بھٹو اور میاںنوازشریف نے ایک سے زیادہ حلقوں سے الیکشن لڑا۔2008ء کے عام انتخابات میں جاوید ہاشمی مسلم لیگ(ن)کے ٹکٹ پر ملتان، راولپنڈی اورلاہور سے بیک وقت کامیاب ہوئے۔
عمران خان نےخود2013ءمیںچار حلقوں میانوالی،لاہور،راولپنڈی اور پشاور سے انتخابات میں حصہ لیا۔لاہور میں سردار ایاز صادق نے انہیں شکست دی جب کہ جیتی ہوئی دیگر تین نشستوں میں سے راولپنڈی کی نشست پاس رکھتے ہوئے دو نشستیں انہوں نے خالی کردیں۔ضمنی الیکشن میں پشاور سے غلام احمد بلور نے پی ٹی آئی کے امیدوار کو شکست دے دی۔2018ء کے انتخابات میں عمران خان نے اپنے قد کاٹھ میں مزید اضافہ کرنے کیلئے پانچ حلقوں سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیااور کامیاب رہے۔
بعد ازاں انہوں نے اسلام آباد،بنوں ،کراچی اور لاہور سے جیتی ہوئی نشستیں چھوڑ دیں۔میانوالی سے وہ اب بھی رُکن قومی اسمبلی ہیں ۔اب اگر وہ 9حلقوں میں ضمنی الیکشن جیتنے میں کامیاب رہے تو ان تمام حلقوں میں ایک بار پھر الیکشن کروانا پڑے گا ۔میں نے 2018ء کے انتخابات کے بعد بھی انہی صفحات پر عرض کیا تھا کہ ایک سے زیادہ حلقوں سے بیک وقت الیکشن لڑنے کا بھونڈا مذاق اب ختم ہونا چاہئے ۔ تجویز کنندہ اور تائید کنندہ کیلئے اگریہ شرط رکھی گئی ہے کہ وہ مقامی ہوں اور ان کا ووٹ اسی حلقے میں درج ہو تو پھر امیدوار ’’امپورٹڈ‘‘کیسے ہو سکتا ہے؟اصولاً اسی شخص کو الیکشن لڑنے کا حق دیا جائے جس کا تعلق اسی حلقے سے ہوکیوں کہ اگر اس حوالے سے قانون سازی نہ کی گئی تو یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جائے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ عام انتخابات میں عمران خان کسی اور کو ٹکٹ دینے کے بجائے 272حلقوں پرخود ہی الیکشن لڑنے کا اعلان کردیں ۔
غالباً 1996ء میں ریلیز ہونے والی بھارتی فلم ’’گھاتک‘‘ ،جس میں سنی دیول نے مرکزی کردار اداکیا تھا ،میں دہلی کی ایک مارکیٹ جس پر ’’کاتیا‘‘نامی غنڈے کی اجارہ داری ہوتی ہے ،وہاں سب دکانوں پر ایک ہی نام لکھا ہوتا ہے ۔کپتان کی بھی یہی خواہش ہے کہ ہر طرف ایک ہی تصویر اور ایک ہی نام ہو۔؟وہ برگد کا ایسا درخت بننا چاہتے ہیں جس کے سائے تلے کوئی اور پودا نشوونما نہ پاسکے۔ ان کی دیرینہ آرزوہے کہ اس ملک میں صدارتی نظام رائج ہو ،ایک ہی شخص کے نام پر ووٹ ڈالے جائیں اور وہ اپنی مرضی سے تمام فیصلے کرسکے۔پارلیمانی نظام میں مگر ’’ون مین شو‘‘نہیں چل سکتا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔